حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بازاروں میں چکر لگا رہے تھے، لوگوں کی ضروریات معلوم کر رہے تھے کہ ایک نوجوان عورت ملی جس پر حاجت مندی کے آثار نمایاں تھے۔ حیا و شرم سے کہنے لگی ، اے امیر المومنین! میرے شوہر کی وفات ہو گئی، اس نے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے ہیں۔
خدا گواہ ہے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے، مجھے ان بچوں کو ضائع ہو جانے کا اندیشہ ہے اور میں خفاف بن ایماء الغازی کی بیٹی ہوں جو حدیبیہ میں حضور اکرمﷺ کے ساتھ موجود تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ (یہ سن کر) رک گئے اور بشاشت وجہ سے اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’قریبی نسب پر خوش آمدید، خوش آمدید! پھر اپنے گھر تشریف لے گئے جہاں ایک اونٹ بندھا ہوا تھا، اس پر دو بوریاں غلہ کی بھر کر لادیں اور کپڑے اور ضروری سامان رکھا، پھر اس کی مہار اس کے ہاتھ می دیتے ہوئے فرمایا یہ لے جاؤ، یہ سامان ختم نہیں ہوگا تاوفتیکہ اللہ تعالیٰ تمہیں خیر و بھلائی عطا فرمائیں۔ ایک آدمی نے جو اس عطاء و بخشش کو دیکھ رہا تھا، کہا کہ اے امیرالمومنین! آپ نے اس کو بہت زیادہ دے دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تیرا ناس ہو! خدا کی قسم! میں اس عورت کے باپ اور بھائی کو دیکھتا تھا، ان دونوں نے ایک مدت تک قلعہ کا محاصرہ کر رکھا تھا پھر اس کو فتح کیا اور ہم لوگ اس میں ان کے حصے غنیمت کے طور پر دینے لگے۔