حضرت مولانا محمد انعام الحق قاسمی کہتے ہیں کہ یہ رزق کامعاملہ عجیب ہے۔ میں اپنی زندگی میں بے شمار جگہوں پر گیاہوں، میں نے اکثر لوگوں کو اس دنیا کے اندر زیادہ کھاتے ہی دیکھا۔ تو جب اللہ تعالیٰ کی اتنی نعمتیں ہیں تو ان کا شکر ادا کرنا چاہیے، ایک مچھلی دیکھی اس کا نام تھا بلو ویل،
اتنی بڑی مچھلی کہ اس کا وزن روزانہ ایک سو پاؤنڈ بڑھتاہے، یعنی پچاس کلو روزانہ بڑھتاہے، آج کل کے نوجوانوں کے وزن ہی پچاس ساٹھ کلو یا ستر کلو ہیں تو جس مچھلی کا وزن پچاس کلو روزانہ بڑھتا ہے تو وہ کھاتی کتنا ہوگی؟ اچھا مزے کی بات یہ کہ وہ ایسی چیز کھاتی ہے جس کو ہم دیکھ ہی نہیں سکتے، وہ سمندر کا پانی اپنے اندر لیتی ہے اوراس کے جسم میں اللہ تعالیٰ نے ایک بہت باریک سی سکرین بنائی ہوئی ہے۔ اس میں سے پانی گزرتا ہے تو پانی میں سمندر کے اندر جو چھوٹے چھوٹے بیکٹریا ہوتے ہیں، آنکھ سے نظر ہی نہیں آتے، وہ چھلنی کی طرح سکرین کے ایک طرف رہ جاتے ہیں اور صاف پانی آگے نکل جاتا ہے یہی بیکٹریا اس کی غذا بنتے ہیں۔ کوئی اندازہ لگا سکتا کہ وہ کھاتی کچھ نہیں، بس ہر وقت پانی اس کے منہ میں آ رہا ہے جارہا ہے اور کچھ فلٹر ہو کے جو جھاگ سی بنتی ہے وہ اس کی غذا بن رہی ہے۔ واہ میرے مولا تیری نرالی شان ہے اور ہر وقت وہ چلتی رہتی ہے، اپنی زندگی میں وہ اتنا چلتی ہے کہ تین مرتبہ وہ چاند کا چکر لگا کر واپس آ سکتی ہے اتنا سفر طے کرتی ہے۔ ’’وما یعلم جنود ربک الا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ دیکھو اس کی غذا اللہ نے یہ بنا دی، تو غذا تو بندے کو اللہ تعالیٰ پہنچاتے ہیں۔