جمیل بن عبداللہ بن معمر مشہور عاشق گزرے ہیں، تبریزی لکھتے ہیں ’’وکان امام المحبین وسید العاشقین، لم یکن فی زمنہ أسق نسیباً منہ بشھادۃ أھل عصرہ‘‘۔ یہ ’’بثینہ‘‘ نامی عورت پر عاشق تھے۔ دونوں کا تعلق عرب کے مشہور قبیلہ ’عذراء‘‘ سے تھا۔
جس کا خمیر ہی عشق و محبت پر اٹھایا گیا تھا ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ کی طرح ان کانام بھی ساتھ لیا جاتا ہے اور کہتے ہیں ’’جمیل بثینہ‘‘۔ علامہ ابن خلکان نے جمیل کا یہ واقعہ لکھا ہے کہ عباس بن سہل ساعدی ان کے مرض وفات میں عیادت کیلئے حاضر ہوئے، جمیل نے ان سے کہا ’’یعنی ایسے آدمی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جس نے نہ کبھی شراب پی ہو، نہ زنا کیا ہو، نہ ہی کسی کوقتل کیا ہو، نہ چوری کی ہو اور وہ کلمہ توحید کی گواہی دیتا ہو‘‘۔ عباس بن سہل نے کہا ’’میں سمجھتا ہوں کہ ایسا آدمی صاحب نجات ہے اور میں اس کے لئے جنت کی امید رکھتا ہوں لیکن ایسا آدمی کون ہے؟‘‘ جمیل نے کہا ’’میں ہوں‘‘ عباس بولے ’’آپ کے پاکدامن رہ جانے کے متعلق تو مجھے یقین نہیں آتا کیونکہ آپ تو بیس سال سے ’’بثینہ‘‘ کے بارے میں تشبیب و غزل کے اشعار کہہ رہے ہیں‘‘ جمیل نے جواب میں کہا ’’آج جبکہ میری آخرت کی زندگی کا پہلا دن اور دنیاوی زندگی کا آخری دن ہے، میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ مجھے نبی کریمﷺ کی شفاعت نصیب نہ ہو اگر میں نے بثینہ پر گناہ کے خیال سے کبھی ہاتھ رکھاہو‘‘۔ اس کے کچھ دیر بعد ان کا انتقال ہو گیا، بثینہ کو وفات کی خبر ہوئی تو بیہوش ہو کر گر گئی۔