عبداللہ بن طاہر عہد عباسی میں خراسان کے امیر تھے، ان کے پڑوس میں ایک بوڑھی رہتی تھی، جس کی چار بیٹیاں تھیں، کسی نے اس کو مشورہ دیا کہ آپ اپنا گھر فروخت کر دیں کیونکہ آپ بڑی تنگدست ہیں، کچھ ہاتھ کھل جائے گا، کہنے لگی ’’گھر فروخت کرنے کو تو جی چاہتا ہے لیکن عبداللہ بن طاہر کا پڑوس فروخت کرنے پر دل آمادہ نہیں‘‘
عبداللہ تک یہ خبر پہنچی تو انہوں نے پڑوسی ہونے کا واقعتاً حق ادا کیا، بوڑھی کی چاروں بیٹیوں کے لئے یہ ظاہر کر کے کہ یہ میری بیٹیاں ہیں، رشتے تلاش کئے اور ہر لڑکی کو ایک لاکھ کا جہیز دیا۔ مشہور تابعی حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا، اس نے اپنا گھر فروخت کرنا چاہا اور اس کی دو ہزار قیمت لگائی، لوگوں نے کہا ’’اس کی قیمت تو ایک ہزار ہے‘‘ کہنے لگا ’’تم ٹھیک کہتے ہو، دراصل ایک ہزار گھر کی قیمت ہے اور ایک ہزار عبداللہ بن مبارک کے پڑوس کی قیمت ہے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کو جب یہ معلوم ہوا تو اس کو بلا کر ایک ہزار درہم دے دیئے اور کہا ’’گھر مت بیچو‘‘۔ سلیمان بن الجہم مشہور تابعی ہیں، حضرت سعید بن العاصؓ کے پڑوس میں رہتے تھے، اپنا گھر انہوں نے ایک لاکھ درہم میں فروخت کیا، پھر خریداروں سے فرمانے لگے ’’سعید بن العاص کے پڑوس کو کتنے میں خریدو گے‘‘ کہنے لگے ’’کیاپڑوس بھی خریدا جاتا ہے؟‘‘ فرمایا میرا گھر واپس کرو اور اپنی قیمت لے لو، بخدا میں ایسے پڑوسی کو نہیں چھوڑ سکتا کہ اگر میں اس کے پاس جاؤں تو میرا حال دریافت کرے، مجھے دیکھے تو استقبال کرے، نہ ہوں تو میرے گھر کی حفاظت کرے، مانگوں تو ضرورت پوری کرے، نہ مانگوں تو از خود تعاون کرے‘‘۔ حضرت سعیدؓ کو جب یہ اطلاع ملی تو گھر کی قیمت ایک لاکھ درہم ان کے پاس بطور ہدیہ ارسال کی۔