حافظ شیرازیؒ عموماً لسان الغیب سے یاد کئے جاتے ہیں۔ اس لقب کے بارے میں مولانا عبدالرحمان جامیؒ فرماتے ہیں کہ ان کو ’’لسان الغیب‘‘ اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ ان کے کلام میں تکلف و تصنع بالکل نہیں اور یہ آمد سوائے تائید غیبی اور القاء کے ممکن نہیں جبکہ مولانا آزاد بلگرامی کاخیال ہے کہ حافظ کو ’’لسان الغیب‘‘ کا لقب اس واسطے دیا گیا ہے کہ اکثر خوش اعتقاد لوگ اس سے فالیں نکالتے ہیں اور وہ اکثر صحیح نکلتی ہیں۔ چنانچہ اس بارے میں بہت دلچسپ واقعات مشہور ہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اورنگزیب عالمگیر کی شاہی مہر گم ہو گئی چونکہ وہ بہت قیمتی تھی اور ہیرے جواہرات اس میں لگے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں سب سے بڑاخطرہ یہ تھا کہ اگر یہ کسی شخص کے ہاتھ لگی اور اس کو غلط طریقے سے استعمال کیا گیا تو حکومت کو بہت بڑا نقصان ہو گا چونکہ عالمگیر کو خواجہ شیرازی سے کمال عقیدت تھی، اس سے فال نکالنے اور دیکھنے کی غرض سے دیوان حافظ اٹھایا اور کنیز کو پکارا کہ چراغ لے کر آؤ، وہ چراغ لے کر آئی، انہوں نے دیوان حافظ کھول کر دیکھاتو یہ شعر نکلا۔عزیز مصر بزعم برادران غیور۔۔زقعر چاہ برآمد باوج ماہ رسید۔ بالآخر کئی لڑائیوں کے بعد ہندوستان پر قابض ہوا۔