کراچی(نیوز ڈیسک)پاکستانی فلموں کو اپنی مدھر موسیقی سے دنیا بھر میں منفرد پہچان دلوانے والے لیجنڈری موسیقار نثار بزمی کی آٹھویں برسی بائیس مارچ کو منائی جارہی ہے۔ سید نثار احمد بزمی نے 1939ئ میں آل انڈیا ریڈیو سے بطور آرٹسٹ اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا اور پہلی بار 1946ء میں بھارتی فلم ”جمنا پار “ کیلئے میوزک کمپوز کیا۔ نثار بزمی نے 40کے قریب بھارتی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے معمار فضل احمد فضلی کی جانب سے فلموں میں میوزک دینے کی آفر ملنے پر نثار بزمی 21جون 1962ءکو بھارت سے پاکستان آگئے۔ پاکستان میں پہلا گیت فلم ”ایسا بھی ہوتا ہے“ کے لئے کمپوز کیا، جس کے بول تھے ”محبت میں تیرے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے“ اس گیت کو احمد رشدی اور میڈم نورجہاں نے گایا۔ انہوں نے اپنے فنی کیریئر میں 66پاکستانی فلموں کو دلکش مدھر دھنوں سے سنوار کر اپنی خدا داد صلاحیتوں کو منوایا۔ انہوں نے پاپ گلوکار عالمگیر کو متعارف کروایا۔ اسکے علاوہ بدر الزمان، تنویر آفریدی، فیصل لطیف، شازیہ کوثر، شبانہ کوثر، خورشید نور علی اور دیگر گلوکاروں کو میوزک کے اسرار و رموز سے آگاہ کرتے ہوئے تربیت دی۔ انکے کیریئر کی آخری فلم ”ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ“ تھی۔ انکے کمپوز کردہ مقبول ترین اور سدا بہار فلمی گیتوں میں اے بہارو گواہ رہنا، اظہار بھی مشکل ہے، لگا ہے حسن کا بازار دیکھو، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلئے، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا،ہم چلے تو ہمارے سنگ سنگ نظارے چلے، چلو اچھا ہوا تم بھول گئے، کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے شامل ہیں۔ انہیں پرائیڈ اصف پرفارمنس سمیت متعدد فلمی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ نثار بزمی 83سا ل کی عمر میں 22مارچ 2007ءکو خالق حقیقی سے جاملے مگر ان کی ذہنوں اور دلوں میں محفوظ ہو جانے والی لازوال دھنیں ان کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔