لوگوں کو یقین تھا کہ آج شیخ ابوالحسن نوری کی گردن مار دی جائے گی اس لئے کہ خلیفہ معتضد باللہ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بات کرنے سے پہلے تلوار استعمال کرتا ہے۔ شاہی دربار سجا ہوا ہے اور خلیفہ معتضد باللہ تخت شاہی پر متمکن۔ البتہ دربار میں شیخ ابوالحسن نوری، خلیفہ، موسیٰ بن افلح کوتوال کے سوا کوئی دوسرا شخص موجود نہیں ہے۔ شرعتہ الفحامین نامی گھاٹ کا نگران موسیٰ بن افلح آگے بڑھا اور خلیفہ کے سامنے مقدمہ پیش کیا۔
“عالیجاہ! گھاٹ پر کشتیاں کھڑی تھیں۔ ان میں سے ایک کشتی پر جناب والا کے استعمال کے لئے شراب سے بھرے ہوئے مٹکے رکھے تھے میں پروانہ راہداری جاری کرنے میں مصروف تھا کہ یہ درویش جو اپنا نام ابوالحسن نوری بتلاتا ہے وضو کرنے گھاٹ پر آیا۔ اس نے جب کشتی پر شراب کے مٹکے دیکھے تو اس کا پارہ چڑھ گیا ملاح سے دریافت کیا کہ ان مٹکوں میں کیا ہے؟ ملاح نے بتلایا کہ خلیفہ معتضد باللہ کے لئے شراب لے جائی جا رہی ہے۔ اتنا سننا تھا کہ یہ درویش غصے سے دیوانہ ہو گیا ملاح منع ہی کرتا رہا بار بار جتلاتا رہا کہ یہ مٹکے خلیفہ کے لئے لے جائے جا رہے ہیں مگر اس نے کسی کی ایک نہ سنی اور لاٹھی لے کر مٹکوں پر پل پڑا اور تمام مٹکوں کو چور چور کر دیا جب میں نے ملاح کے چیخنے کی آواز سنی تو بھاگ بھاگا آیا مگر میرے پہنچتے پہنچتے یہ بوڑھا اپنا کام کر چکا تھا۔ عالی جاہ! یہ بوڑھا بڑا گستاخ اور جبری ہے۔ اس نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدائی فوجدار ہے۔ اسے اتنا بھی خیال نہ آیا کہ اس کی گستاخی بادشاہ وقت کی گستاخی ہے جس کے نتائج نہایت خوفناک ہو سکتے ہیں۔ عالی جاہ! مجرم آپ کے دربار میں حاضر ہے اور بندہ جناب والا کے فرمان عالی کا منتظر۔
کوتوال نے یہ ساری کہانی کچھ ایسے اشعال انگیز انداز میں بیان کی کہ خلیفہ معتضد باللہ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اسے ایسا لگا جیسے کسی نے اس کے چہرے پر زناٹے دار طمانچہ رسید کر دیا ہو۔ وہ آگ بگولا ہو کر گویا ہوا۔ــ” تم کون ہو؟”
شیخ ابوالحسن نوری طمانیت و وقار کے پیکر بنے کھڑے ہیں۔ موت سامنے ہے لیکن ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ چہرے پر عزم و استقلال کے اثرات نمایاں ہیں اور دل ہے کہ سکنیت کا مسکن بنا ہوا ہے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔”میں محتسب ہوں”خلیفہ چیخ کر بولا ” تمہیں محتسب کس نے بنایا ہے؟”
“جس نے تجھے حکمران بنایا ہے” شیخ نے بہادری سے جواب دیا۔ شیخ کا جواب سن کر اہل دربار پر سناٹا چھا گیا۔ موسیٰ بن افلاح کوتوال تو گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ جلاد موجود ہے یا نہیں؟ اس لئے کہ خلیفہ اب ضرور بالضرور شیخ کے قتل کا حکم صادر کرے گا مگر یہاں تو حالات ہی دوسرے ہیں۔ خلاف توقع اور خلاف امید۔ بجائے اس کے کہ خلیفہ شیخ کو قتل کرنے کا حکم دیتا سر جھکا کر سوچ میں پڑ گیا۔
اب ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ حاضرین اپنی اپنی سانس روکے ہوئے ہیں۔ دیکھو اب کیا ظہور میں آتا ہے؟تھوڑی دیر کے بعد خلیفہ نے سر اٹھایا اور شیخ سے سوال کیا۔”اچھا یہ تو بتاؤ کہ یہ کام تم نے کیوں کیا؟”شیخ ابوالحسن نوری نے کہا۔
“خلیفہ! میں نے یہ کام تیری دشمنی میں نہیں بلکہ تیری دوستی اور خیر خواہی میں کیا ہے تو ایک ناجائز کام میں مبتلا تھا۔ شراب کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ شراب انسان کو جہنم میں لے جاتی ہے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ مسلمانوں کا مسلمان حکمران جہنم کا ایندھن بنے۔ اس لئے میں نے مٹکے توڑ دیئے۔ کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کا اہم ترین ستون اور عظیم ترین فریضہ ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہنا ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر عذاب نازل کر دے گا ۔ اس وقت تم دعا کرو گے لیکن تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی۔ خلیفہ میں نے اپنے آقا و مولا ﷺ کی ہدایت کے بموجب اس فریضے کو ادا کیا ہے مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔ نہ مجھے نتائج کی سنگینی کا خیال ہے میرے فرض نے مجھے آواز دی میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔”
شیخ کی اس مختصر گفتگو نے خلیفہ معتضد باللہ کے دل کی دنیا کو منقلب کر دیا اقتدار کا نشہ سر سے اتر گیا۔ مالک الملک کے دربار میں حاضری کے خیال نے اس میں احساس ندامت پیدا کر دیا اور دنیا نے دیکھا کہ بنو عباسیہ کا پر جلال حکمران ایک گدائے بے نوا کا دامن تھامے توبہ کر رہا ہے۔حق کا تیر نشانے پر لگ چکا تھا اس لئے کہ شیخ کا عمل ہر قسم کی نفسانیت سے خالی تھا اور شیخ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا۔