یہ بھی زمانے کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ چشم زدن میں ایک ہی خاندان تین حصوں میں تقسیم ہو گیا ۔ لیکن صبر کا دامن ہاتھوں سے نہ چھوٹا۔ کفار کے مظالم سے تنگ آ کر حضرت عبداللہ اور ان کی بیوی ہند حبشہ کی طرف ہجر ت کر گئے تھے۔ اللہ نے حبشہ کے دوران قیام میں ایک چاند جیسا بیٹا دیا۔ نام سلمہ رکھا گیا اور باپ عبداللہ کی بجائے ابو سلمہ اور ماں ہند کے بجائے ام سلمہ کے نام سے پکاری جانے لگیں۔
حبشہ میں خبر ملی کہ مکہ والے مسلمان ہو گئے ہیں تو خوشی خوشی تین آدمیوں پر مشتمل یہ خاندان واپس مکہ پہنچا لیکن خبر غلط ثابت ہوئی۔ سرکار ﷺ مدینہ منورہ ہجرت فرما چکے تھے۔ ابو سلمہ نے فیصلہ کیا کہ مدینہ چلنا چاہیے۔ بیوی اور بچے کو ساتھ لیا اور مکہ سے چل نکلے۔ کفار کو خبر ہوئی تو شہر سے باہر ہوتے ہی انہیں گھیر لیا۔ ابو سلمہ کے خاندان والے بھی تھے اور ام سلمہ کے قبیلے والے بھی۔ سواری روک دو۔ ہر طرف سے آواز آئی۔ ابو سلمہ ٹھہر گئے۔ پوچھا کیا بات ہے۔ ام سلمہ کے اہل قبیلہ آگے بڑھے اور دریافت کیا۔ کیا تم مکہ چھوڑ رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا۔ ہاں! اتنا سننا تھا کہ بنو مغیرہ نے جو ام سلمہ کے اہل قبیلہ تھے آگے بڑھ کر اونٹ کی مہار حضرت ابو سلمہ کے ہاتھ سے چھین لی اور کہا کہ تم اپنی مرضی کے مالک ہو جہاں چاہو جاؤ لیکن ہمیں یہ گوارا نہیں کہ ہمارے خاندان کی خاتون تمہارے ساتھ در بدر ماری پھرتی رہے۔ ام سلمہ گود میں بچے کو لئے اونٹ پر بیٹھی بے بسی سے شوہر کو دیکھ رہی ہیں۔ فریاد کی لیکن وہ درد بھری فریاد دل پر اثر کر سکتی تھی پتھر پر کیا اثر کرتی۔ اہل قبیلہ ام سلمہ کا اونٹ لے کر ابھی تھوڑی ہی دور گئے
تھے کہ بنو مخزوم حضرت ابو سلمہ کے قبیلے والوں نے راستہ روک لیا تم اپنے خاندان کا فرد ہے ہم اسے تمہارے حوالے نہیں کر سکتے یہ کہہ کر ایک ظالم بڑھا اور مامتا بھری گود سے سلمہ کو چھین لیا۔ ابو سلمہ کے دل سے ہوک اٹھی کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ بیک وقت دونوں قبیلوں سے ٹکرانے کی طاقت نہ تھی ایک طرف بیوی جا رہی تھی دوسری طرف بچہ۔ ابو سلمہ نے اپنا رخ مدینے کی طرف موڑا کہ ان کے درد کی دوا تو وہیں تھی۔ دل نے پکار کر کہا ابو سلمہ تیری بیوی اور تیرے بچے کو تجھ سے جدا کر دیا گیا
۔ پھر بچے کو ماں سے چھین لیا گیا تو نے یہ سارے منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ پلک جھپکتے تیرا خاندان تین حصوں میں بٹ گیا۔ سب کچھ تو چلا گیا۔ کچھ بھی تو نہ رہا ۔ پھر بھی تو نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ یہ تو خاندان تھا دین تو ایسی چیز ہے کہ اس کے لئے نقد جان بھی ہارنی پڑتی ہے ۔ ممکن ہے کہ ابو سلمہ کی اس مصیبت پر چشم فلک خون کے آنسو بہا رہی ہو اور مکہ کے در و دیوار بھی لرز گئے ہوں۔ لیکن ابو سلمہ اس لئے مطمئن تھے کہ سب کچھ ہار کر بھی وہ بازی جیت چکے تھے۔ ابو سلمہ نے اللہ کے لئے سب کو چھوڑا تھا پورا ایک سال بھی نہ گزرا کہ اللہ نے باپ، بیٹے اور ماں سب کو مدینے کی خنک چھاؤں میں اکٹھا کر دیا۔ عشق و ایمان کا امتحان لیا گیا اور تین افراد پر مشتمل یہ خانوادہ کامیاب و کامران قرار پایا۔