نیویارک(آئی این پی) سابق سوویت ریاستوں میں ممکنہ روسی حملے کے خطرے کے پیش نظر امریکا نے ان ممالک میں اپنے فوجی تعینات کردیے۔امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق بالٹک ممالک لتھوانیا،اسٹونیا اورلیٹویا میں روس کے ممکنہ حملوں کے پیش نظر امریکا نے وہاں اپنی اسپیشل آپریشنز فورسز تعینات کردی ہیں۔خیال رہے کہ یہ تینوں ممالک 2 دہائی قبل ٹوٹنے والے سوویت یونین کا حصہ تھے اور ان ممالک کو بالٹک ریاستیں بھی کہا جاتا ہے۔امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق روسی فوج کی جانب سے بالٹک سمندر اور یوکرین میں مداخلت کے بعد ان ممالک میں روس کے حملوں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے
جس کے پیش نظر پینٹاگون میں اسپیشل آپریشنز کمانڈ کے سربراہ جنرل ریمنڈ ٹی تھامس نے حال ہی میں بالٹک ریاستوں کا دورہ کیا۔اپنے دورے کے دوران جنرل ریمنڈ کا کہنا تھا کہ لتھوانیا،اسٹونیا اور لیٹویا کی مختصر فوج امریکی قیادت کے لیے بے تاب ہیں، جب کہ ماسکو ان ممالک میں امریکی فوج کی خاموش تعیناتی سے بھی آگا ہ ہے۔امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ روس کی روایتی فوجی حکمت عملی اور سائبر وار فیئر کو نظر میں رکھتے ہوئے امریکی فوجیوں نے بالٹک ریاست کے فوجیوں کے ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے نگرانی شروع کردی ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ کریمیا سے الحاق کے بعد روسی فوج کی جانب سے بالٹک ریاستوں کے ساحلوں اور مغربی یورپ میں پیٹرولنگ میں اضافے کے پیش نظر نیٹو اور امریکی افواج نے بھی بالٹک ریاستوں اور مشرقی یورپ میں اپنی مشقوں میں اضافہ کردیا ہے۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر سابق سوویت یونین کا حصہ رہنے والے تینوں ممالک لتھوانیا، لیٹویا اور اسٹونیا نے 2016 میں اپنے دفاعی سازو سامان اور تنصیبات پر 3 کروڑ 90 لاکھ امریکی ڈالر خرچ کیے جب کہ 2014 میں ان ممالک نے اسی مد میں 2 کروڑ 10 لاکھ روپے خرچ کیے تھے۔خیال رہے کہ اس سے پہلے روس نے لتھوانیا اور پولینڈ کے درمیان جوہری بیلسٹک میزائل کی تنصیب سے متعلق تمام خدشات کو مسترد کردیا تھا۔امریکی اخبار نے روس کی جانب سے حملے کے خدشے کی رپورٹ ایسے وقت میں دی ہے
جب امریکا اور روس کے تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں روس کی جانب سے مبینہ مداخلت کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں.مریکی خفیہ اداروں کے عہدیداروں کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن امریکی انتخابات کی ہیکنگ میں براہ راست ملوث تھے، جب کہ روس ان الزامات کی تردید کرچکا ہے۔امریکی حکام کے مطابق روسی صدر پیوٹن کی مداخلت کا مقصد ڈونلڈ ٹرمپ کو مدد فراہم کرنا تھا، منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان الزامات کو مضحکہ خیز قرار دے چکے ہیں۔ان الزامات کے پیش نظر گزشتہ ہفتے امریکی صدر براک اوباما نے روس کے 35 سفارتکاروں کو امریکا بدر کردیا تھا، جب کہ پیوٹن نے روس سے امریکی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے سے انکار کردیا تھا۔