لندن(این این آئی)عام طور پرلوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ عمر رسیدگی کسی شخص کی جوانی میں کیے گئے جرائم کی تحقیقات میں رکاوٹ بن سکتی ہے مگر برطانیہ کی ایک عدالت نے اس تاثر کو غلط ثابت کرتے ہوئے ایک سوسالہ بوڑھے کے خلاف جنسی ہراسانی کے تین مقدمات کے تحت ٹرائل شروع کیا ہے۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں مْعمر برطانوی کو کئی سال قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانیہ کے برمنگھم کے علاقے میں قائم جرائم کے مقدمات نمٹانے والی عدالت نے 101 سالہ برطانوی سابق ٹرک ڈرائیور رالف کلارک کے خلاف آج سے 40 سال پرانے تین کیسز کی تحقیقات شروع کی ہیں۔ ان کیسز میں ملزم پر ایک سات سالہ بچی سمیت خواتین پر جنسی ہراسانی کے تین الزامات عاید کیے گئے ہیں۔برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ واقعات سنہ 1974 ء سے سنہ 1985ء کے درمیانے عرصے کے ہیں جب اس نے مبینہ طور پر اپنے گھر، پارک میں قائم کردہ جھونپڑی اور ٹرک میں ایک بچی اور دو دیگر خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔عدالت نے عمر رسیدگی کے باوجود ملزم کے خلاف عاید الزمات کی تحقیقات شروع کی ہے۔ الزامات درست ثابت ہونے کی صورت میں رالف کلارک کو بقیہ عمر جل میں گذرنا پڑ سکتی ہے۔عدالت نے تینوں کیسز کو ’سنگین‘ قرار دیتے ہوئے یہ عندیہ دیا ہے کہ ملزم کو ان کیسز میں کڑی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
کلارک کے مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج ریچرڈ بونڈکا کہنا ہے کہ متاثرین کو پہنچنے والی نفسیاتی اذیت کے باعث ملزم کو کم سے کم 10 سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔جج کا کہنا ہے کہ ہم عمر رسیدگی کو بھی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہیں مگر ہم یہ بات بھی فراموش نہیں کرسکتے ہیں کہ ایک شخص جوانی کیایام میں آزادی کیساتھ ایک عشرے تک دوسروں کو ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچانے کا موجب بنا ہے۔ ایسے شخص کو کئی سال تک جیل میں رہنا چاہیے۔کلارک کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کی عمر آئندہ مارچ میں 102 سال ہو جائے گی۔ بڑھاپے کے باعث وہ صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔ اس عمر میں کسی شخص کو سز ادینا حقیقی معنوں میں عمر قید سنانے کے مترادف ہے۔برطانیہ کے میلانڈز شہر میں جنسی جرائم کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ یونٹ کی پولیس انسپکٹر ایما فینون کا کنا ہے کہ عمر رسیدگی کی آڑ میں کسی شخص کو اپنے جرائم کی پردہ پوشی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ یہ کیس سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث آنے لگا ہے اور لوگ اس کی حمایت اور مخالفت میں رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ بعض لوگ اسے قانون کی حکمرانی کی بہترین مثال سے تعبیر کرتے ہیں۔