ایبٹ آباد (این این آئی)اندر جا کر کیا دیکھنا ہے بس گٹھڑیاں ہی تو پڑی ہیںیہ بات طیارہ حادثے کے بعد امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے والے غمزدہ شخص نے کہی سرکاری ایمبولینس میں سوار ایک شخص نے غمزد ہ لہجے میں کہا کہ اس طرف جانے کی کیا ضرورت ہے وہاں اب بچا ہی کیا ہے۔انھوں نے ساتھ ہی ایمبولینس میں پڑی ایک خون آلود گٹھڑی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بس یہ ٹکڑے ہیں جو ہم جمع کر کے ایبٹ آباد کے ایوب میڈیکل کمپلیکس لے کر جا رہے ہیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ حادثے کے پندرہ منٹ بعد قریب دیہات کے لوگ جائے حادثہ پر پہنچے اور امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا ۔ تفصیلات کے مطابق جائے حادثہ پر سب سے پہلے پہنچے والے لوگ حویلیاں کے گاؤن کریالہ اور بٹنولی کے رہائشی تھے ۔
علاقے کی مسجد کے امام مولانا سرفرار نے کہا کہ مغرب سے کچھ وقت قبل ہم نے آبادی کے اوپر طیارہ دیکھا ٗطیارہ ڈانواں ڈول ہو رہا تھا اور ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ ابھی آبادی پر گر پڑے گا ٗمگر میرے اور دیگر کئی لوگوں کے دیکھتے ہی دیکھتے طیارے نے رخ بدلا اور پہاڑ سے جا ٹکرایا ٗپہاڑ سے ٹکرانے کے بعد دھماکہ ہو ا اور ہر طرف آگ لگ گئی قریبی دیہاتوں کے مرد و خواتین دھماکے کی آواز سن کر جائے حادثہ کی طرف دوڑے اور ملبے میں لگی ہوئی آگ کو مٹی ڈال کر بجھاتے رہے۔امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے گل نصیر نے بتایا کہ حادثے کے 15 منٹ بعد میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ موقعے پر پہنچ گیا تھا اب مسئلہ تھا کہ آگ کو کیسے بجھائیں ہم اوڑھنے والی چادروں کے ساتھ مٹی آگ پر ڈالتے رہے۔
انہوں نے کہاکہ میں نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ جلی ہوئی لاشوں کے ٹکڑے اکٹھے کیے تھے ٗان ٹکڑوں کو بھی اوڑھنے والی چادروں میں ڈالتے رہے تھے ٗکوئی بھی لاش محفوظ نہیں تھی تاہم جائے حادثہ سے کچھ دور ایک بچے کا بازو صحیح سلامت تھاعلاقے ہی کے ایک اور شخص سردار گل نے بتایا کہ طیارے میں موجود انسانوں سمیت سب کچھ جل کر راکھ ہو چکا تھا مگر حادثے سے کچھ مقام پر مسافروں کے چپل ٗ بوٹ وغیرہ پڑے ہوئے تھے ٗجن سے محسوس ہوتا تھا کہ شاید طیارہ تباہ ہوتے وقت دور جا گرے تھے جس وجہ سے جلنے سے بچ گے تھے