لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ کچھ افراد عوامی سہولتوں کے منصوبوں پرتنقید کرکے اپناقدبڑاکرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔موجودہ صورتحال کوہی مدنظررکھاجائے ۔مثال کے طورپرہمیں یہ کہاجائے کہ انگریزی لفظ pپرتین بڑی باتیں بنائیں توہم پاکستان ،پالیٹکس اورپراگریس لکھیں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لیکن کے بارے میں کچھ اورکہاجائے تویہ ہمارے لئے مشکل ہوگا۔ہمیں سیاست سے بالاترہوکرپاکستان کودیکھناچاہیے ،ہمیں سیاست کوترقی سے دوررکھناچاہیے ۔پاکستان میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی اگرہم اس کوسیاسی رنگ دیناچھوڑدیں ۔
ہرمعاملے کوسیاسی رنگ دینے سے کئی منصوبوں کی ترقی کے ثمرات ضائع ہوجاتے ہیں اورپاکستان میں ایسی ہی تنقید بعض اوقات کئی مسائل پیداہورہے ہیں جب بھی وفاقی حکومت عوام کی فلاح کےلئے کوئی منصوبہ شروع کرنے کی تیاری کرتی ہے تودوسر ی جماعتوں کی طرف سے اس منصوبے کوشروع کرنے سے پہلے ہی تنقید شروع ہوجاتی ہے اوراپنے موقف درست ثابت کرنے کےلئے یہ جماعتیں ہزاروں دلائل ڈھونڈلیتی ہیں ۔
ٹرانسپورٹ کاپنجاب اورسندھ میں ایک بڑامسئلہ ہے مجھے یادہے کہ جب کبھی ہم والوبسوں ،ویگینوں میں پنجاب اورسندھ میں سفرکریں توسفراتنامشکل ہوتاہے کہ ہم سفرکرنے سے ہی اکتاجاتے ہیں لیکن دوسری طرف جب سیاسی جماعتوں کودیکھتے ہیں تووہ حکومت کے سفری سہولیات کے لئے شروع کئے گئے منصوبوں کونتقید کانشانہ بنارہے ہوتے ہیں ۔اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس سفری سہولتیں ہیں جبکہ عام لوگوں کے پاس ایسی سہولتیں میسرنہیں ہیں ۔
گزشتہ روزمیرے ایک کزن نے مجھے کہاکہ ہمیںبہت افسوس ہورہاہے کہ حکومت ناظم آبادفلائی اوورکوگرارہی ہے جس سے گرین بیلٹ کونقصان ہوگایہ میراوہی کزن ہے جوکہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے نظام کوہمیشہ تنقید کانشانہ بناتانظرآتاہے اوروہ کراچی میں فلائی اوورزنہ ہونے کی وجہ سے عوام کی مشکلات کاذکرکررہاہوتاہے ۔
اس لئے میں نے اندازہ لگایاکہ حکومت کوکچھ وقت دیناچاہیے کہ وہ عوام کوسہولتیں فراہم کرنے کےلئےبہترطورپرکام کرسکے جبکہ اس حکومت کےلئے ضروری نہیں ہے کہ وہ عوامی فلاح کے منصوبوں پرکسی سے منظوری لے ۔