لاہور (این این آئی )پاپ میوزک سے تبلیغی جماعت تک کا سفر جنید جمشید کی زندگی کا خاصہ ہے ۔رپورٹ کے مطابق جنید جمشید 3ستمبر 1964ء کو کراچی میں پیدا ہوئے ۔ وہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے فارغ التحصیل ہیں۔ جنید جمشید بنیادی طور پر انجینئر تھے ،انہوں نے پاک فضائیہ کے لئے سول کنٹریکٹر کے طور پر بھی کام کیالیکن میوزک کے شوق نے انہیں شوبز کی رنگارنگی میں اپنا مقدر چمکانے کی راہ دکھائی اور برسوں تک وہ اپنے گٹار اور ہلکے مدھر سروں کی وجہ سے نوجوانوں کے دلوں پر راج کرتے رہے۔انہوں نے پاپ موسیقی گروپ وائٹل سائنز کے نمائندہ گلوکار کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔1987ء میں ملی نغمے ’’دل دل پاکستان‘‘ کی ریلز کے ساتھ ہی وہ شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گئے۔ ان کی پاپ گلوگاری کے دور میں 1994میں وائٹل سائنز، 1999ء میں اس راہ پر اور 2002 ء میں دل کی بات البمز ریلیز ہوئے ۔
اسی دوران اپنے موسیقی کے دور عرو ج میں ہی ان کا رجحان اسلامی تعلیمات کی طرف بھی بام عروج پر پہنچ گیا اور اپنے عروج کے دنوں میں ہی انہوں نے حتمی فیصلہ کر تے ہوئے موسیقی کی صنعت کو خیر آباد کہہ دیا اورمکمل طورپر اللہ سے لو لگالی ۔ اب وہ نعت خواں اور مذہبی سکالر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کی نعت’’ محمدؐ کا روضہ قریب آرہا ہے ‘‘بہت مقبول ہوئی اور لو گ اسے اپنی موبائل فون کی رنگ ٹون کے طورپر بھی بہت ذوق سے سنتے تھے ۔ مذہبی تبدیلیوں کے ساتھ ہی انہوں نے شوبز کی کمائی کو خود پرحرام قرار دیا اور جنید جمشید کے نام سے اپنی ملبوسات کی مشہور زمانہ برانڈ متعارف کرائی ۔جنید جمشید نے اپنے دو بنیادی مقاصد مقرر کرلئے تھے۔شوبز اور میڈیا میں رہتے ہوئے بطور مبلغ اچھائی کا پرچار کرنااورقومی لباس شلوار قمیض کی ترویج کرنا۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبا کو شوبز کی راہ دکھائی لہذااس گناہ کا کفارہ بھی مجھے ہی ادا کرنا ہے۔
لہذا انہوں نے طلبا کو گمراہی سے بچانے کے لئے تبلیغ شروع کی۔ان کانکتہ نظر بڑا واضح تھا کہ انہیں شوبز کے میڈیم سے باہر اس لئے نہیں جانا چاہئے کیونکہ اگر ٹی وی برائی کا پرچار کرسکتا ہے تو نعت و تبلیغ سے بھی میڈیا سے تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ہنس مکھ اور صبح سویرے اللہ کے پاک نام سے اپنی مصروفیات کا آغاز کرنے والے جنید جمشید نے پتلون اتارنے کے بعد پھر کبھی یہ لباس نہیں پہنا اور شلوار قمیض کو منفرد رواج دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ مسلمان ہیں تو مسلمان بن کر بھی دکھانا چاہئے لہٰذا اپنے روائتی لباس کی ترویج کرنا انہوں نے مشن بنا لیا تھا۔جنید جمشید اپنی موت سے قبل بھی دعوت و تبلیغ کے کام کے لئے چترال گئے تھے جہاں سے اسلام آباد واپسی کے دوران حادثے کا شکار ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔