6 سال کا ایک بچّہ اپنی 4 سالہ چھوٹی بہن کے ساتھ بازار سے گزر رھا تھا۔ چلتے چلتے جب اُس نے مڑ کر دیکھا تو اُس کی بہن پیچھے رہ گئی تھی۔ وہ ایک کھلونوں کی دوکان کی کھڑکی سے اندر کسی چیز کو بڑے شوق اور انہماک سے دیکھ رھی تھی۔ لڑکا اُس کے قریب گیا اور پوچھنے لگا: “کیا تمہیں کوئی کھلونا چاھیے؟” لڑکی نے ایک گڑیا کی طرف ھاتھ سے اشارہ کیا۔ وہ بہن کے ساتھ دوکان کے اندر گیا
اور ایک ذمّہ دار بڑے بھائی کی طرح وہ گڑیا اُٹھا کر اپنی بہن کے ھاتھ میں تھما دیا۔ک بہن کی آنکھیں خوشی سی چمک اٹھیں۔دوکاندار یہ سارا منظر بڑے غور سے دیکھ رھا تھا کہ اِتنا چھوٹا سا بچہ کس قدر محبّت اور ذمہ داری سے اپنی بہن کی خواھش پوری کر رھا ھے۔وہ لڑکا دوکاندار کے پاس آیا اور کہنے لگا:”جناب! اِس گڑیا کی قیمت کیا ھے؟”دوکاندار ایک جہاندیدہ شخص تھا اور زندگی کے اتار چڑھاؤ دیکھ چکا تھا، اُس نے بڑی شفقت سے پوچھا: “تم اِس کی کتنی قیمت دے سکتے ھو؟”لڑکے نے اپنی جیب سے وہ ساری سیپیاں نکالیں جو اُس نے ساحل سے چنے تھے اور دوکاندار کے سامنے میز پر رکھ دیئے۔ دوکاندار اُن سیپیوں کو ایسے گننے لگا جیسے پیسے گن رھا ھو۔ اُس نے لڑکے کی سمت نظر اٹھا کر دیکھا۔ لڑکے نے پریشان ھو کر پوچھا: “کیا کم ھیں؟””نہیں نہیں، یہ اِس گڑیا کی قیمت سے زیادہ ھیں” یہ کہہ کر دوکاندار نے چار سیپیاں رکھ لیں اور باقی اُس لڑکے کو واپس لوٹا دیں۔ لڑکے نے سیپیاں اپنی جیب میں ڈالیں اور خوشی خوشی اپنی بہن کا ھاتھ پکڑ کر دوکان سے نکل گیا۔ دوکان کا ایک کاریگر یہ سارا ماجرا بڑےغور سے دیکھ رھا تھا۔ دوکاندار کے پاس آ کر کہنے لگا: “جناب آپ نے اِتنی قیمتی گڑیا صرف چار سیپیوں کے عوض اُس بچے کو دےدیئے
؟”دوکاندار کہنے لگا: “یہ ھمارے لئے سیپیاں ھیں، لیکن اس لڑکے کے لئے یہ بہت قیمتی ھیں۔ اس عمر میں شاید اُسے اندازہ ھی نہیں کہ پیسوں کی اھمیت کیا ھے، لیکن جب یہ بڑا ھو گا تو اُسے بھی ھماری طرح سمجھ آجائے گا۔ اور جب اُسے یاد آئے گا کہ کبھی اُس نے اپنی بہن کے لئے ایک گڑیا صرف چار سیپیاں دے کر خریدی تھیں تو وہ سمجھے گا کہ دنیا اچھے انسانوں سے بھری پڑی ھے۔ اِس سے اُسے ایک اچھا سبق ملے گا اور ممکن ھے کہ یہ واقعہ اُسے بھی کسی کے ساتھ کچھ اچھا کرنے کی ترغیب کا باعث بن جائے۔