نئی دہلی(این این آئی) بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے کہا ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک 100 فیصد درست تھی اور ہمیں اس کا ثبوت دینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ بی جے پی کی جانب سے منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران منوہر پاریکر نے کہاکہ اْڑی حملے کے بعد انہیں کئی سابق فوجیوں کے خطوط ملے جن میں ان سے جنگ کی صورت میں ایل او سی پر تعیناتی کی درخواست کی گئی ٗ وہ ان لوگوں کے جذبات کا احترام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج کی بہادری ہمیشہ کسی بھی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر رہی ہے لیکن پہلی مرتبہ کچھ لوگ اس پر سوال اٹھارہے ہیں اور ہمیں ان کے نام لینے کی ضرورت نہیں۔ بھارتی فوج کا سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ 100 فیصد درست ہے ہمیں اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی وڈیو جاری کرنے کی ضرورت نہیں۔
جنگی جنون میں مبتلا مودی حکومت کو اپنے ہی شہریوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ملک کو درپیش مسائل کو حل نہ کیا گیا تو اس سے بڑے پیمانے پر سماجی بے چینی پھیلے گی اگرمطالبات پورے نہ ہوئے تواکتوبر کے آخر میں ممبئی کا رخ کریں گے جس میں ایک کروڑ کے لگ بھگ افراد کی شرکت متوقع ہے اور اس طرح یہ بھارت کی تاریخ کا بڑا احتجاجی مظاہرہ بن جائے گا،دوسری جانب گزشتہ چارماہ سے بھارت میں اورنچی ذات کے لاکھوں لوگ دلتوں کے خلاف مظاہرہ جاری رکھے ہوئے ہیں اورمطالبہ کررہے ہیں کہ دلتوں اور قبائلیوں کوحاصل نسلی تحفظ کا وفاقی قانون فوری منسوخ کیاجائے،ان خاموش جلوسوں کا سلسلہ جولائی میں اس وقت شروع ہوا جب نچلی ذات دلت سے تعلق رکھنے والے تین دلت مردوں نے مبینہ طور پر ایک مرہٹہ لڑکی کو ریپ کیا تھا،بھارتی میڈیا کے مطابق گذشتہ چھ ہفتوں میں دسیوں لاکھ لوگ بڑی خاموشی سے بھارتی ریاست مہاراشٹر کے طول و عرض میں جلوس نکال رہے ہیں،یہ ایک انوکھا احتجاج ہے، ان خاموش مظاہرین کا کوئی رہنما نہیں ہے، اور ان میں کسانوں سے لے کر پروفیشنل تک شامل ہیں۔ کئی جلوسوں کی قیادت عورتیں کر رہی ہیں۔ سیاست دانوں کو ان پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں ہے،یہ مظاہرین مرہٹہ ذات سے تعلق رکھتے ہیں، جسے بھارت کی سب سے پرفخر اور خودپسند ذات سمجھا جاتا ہے۔ ان کی اکثریت کھیتی باڑی کرتی ہے اور یہ مہاراشٹر کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہیں۔مہاراشٹر کا شماربھارت کی نسبتاً مالدار ریاستوں میں ہوتا ہے، جہاں ایک طرف تو بالی وڈ ہے، تو دوسری طرف یہ ریاست کارخانوں اور فارموں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ تاہم اسی ریاست کے بعض حصوں میں سخت غربت بھی پائی جاتی ہے۔ان خاموش جلوسوں کا سلسلہ جولائی میں اس وقت شروع ہوا جب نچلی ذات دلت سے تعلق رکھنے والے تین دلت مردوں نے مبینہ طور پر ایک مرہٹہ لڑکی کو ریپ کیا تھا اس کے بعد مطالبات کی فہرست میں کالجوں اور سرکاری نوکریوں میں کوٹا اور 27 سال پرانے ایک وفاقی قانون کی منسوخی بھی شامل ہو گئے جس کے تحت دلتوں اور قبائلیوں کو نسلی تحفظ حاصل ہے۔ایسے 20 سے زائد جلوسوں کے بعد خاموش مظاہرین اکتوبر کے آخر میں ریاست کے دارالحکومت ممبئی کا رخ کریں گے۔ توقع ہے کہ اس موقعے پر ایک کروڑ کے لگ بھگ افراد جمع ہوں گے اور اس طرح یہ انڈیا کی تاریخ کا بڑا احتجاجی مظاہرہ بن جائے گا۔مہاراشٹر کے خاموش مظاہرین کا کہنا تھا کہ ملک کو کئی مسائل کا سامنا ہے جنھیں حل نہ کیا گیا تو اس سے بڑے پیمانے پر سماجی بے چینی پھیلے گی۔عدم مساوات اور برسوں کی اقرباپروری کی وجہ سے وہاں طاقت اور دولت صرف چند گنے چنے افراد کے ہاتھوں میں مرکوز ہو کر رہ گئی ہیں۔