آپ ذرا دیر کےلئے پاکستان کے ابتدائی دنوں کی طرف آئیے۔
پانی مہاجرین کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا مسئلہ تھا‘ پاکستان کے اکاﺅنٹ میں اس وقت صرف 22 لاکھ روپے تھے‘ فوج‘ پولیس‘ عدلیہ اور سول ایڈمنسٹریشن کا نام و نشان نہیں تھا‘ وزراءکو اپنے محکموں اور محکموں کو اپنے وزیروں کی خبر نہیں تھی‘ آئین‘ قانون اور ضابطے تشکیل کے عمل سے گزر رہے تھے اور اوپر سے لاکھوں لٹے پٹے مہاجرین بھی پاکستان پہنچ گئے‘ یہ لوگ ننگے پاﺅں اور خالی پیٹ تھے اوریہ چھتوں سے بھی محروم تھے‘ پاکستان ابھی ان مسائل سے لڑ رہا تھا کہ بھارت نے ستلج‘ بیاس اور راوی کا پانی روک لیا‘ یہ تینوں دریا بھارت سے پاکستان میں داخل ہوتے تھے‘ بھارت کی آبی جارحیت نوزائیدہ پاکستان کی کمر پر ناقابل برداشت بوجھ ثابت ہوئی‘ وزیراعظم خان لیاقت علی خان مضمرات سے آگاہ تھے‘ وہ جانتے تھے مغربی پاکستان کی 80 فیصد آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے‘ یہ علاقے پانی کے بغیر ”سروائیو“ نہیں کر سکیں گے اور یوں پاکستان قحط کا شکار ہو جائے گا‘ خان لیاقت علی خان وزیراعظم ہاﺅس سے باہر آئے‘ بھارت کو مخاطب کیا اور اعلان کیا ”ہم پانی کے ایک ایک قطرے کی خاطر اپنے خون کا ایک ایک قطرہ دے دیں گے“ یہ اعلان کارگر ثابت ہوا‘ عالمی برادری آگے بڑھی اور پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی پر مذاکرات شروع ہوگئے‘ پاکستانی حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں لیکن مذاکرات جاری رہے یہاں تک کہ ورلڈ بینک درمیان میں آیا اور اس نے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو صدر جنرل ایوب خان کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور کر دیا‘ پنڈت نہرو پاکستان آئے‘ کراچی میں مذاکرات ہوئے اور 9 ستمبر 1960ءکو پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہو گیا‘ یہ معاہدہ سندھ طاس کہلاتا ہے‘ صدر ایوب خان اور پنڈت نہرو نے معاہدے پر فریقین اور ورلڈ بینک کے نائب صدر اے پی ایلف نے ضامن کی حیثیت سے دستخط کئے‘ معاہدے کے مطابق ستلج‘ راوی اور بیاس کا پانی بھارت اور چناب‘ جہلم اور سندھ کے دریا پاکستان کو مل گئے‘ فیصلہ ہوا پاکستان دس برس میں دریائے سندھ‘ جہلم‘ چناب‘ راوی اور ستلج پر ڈیم‘ بیراج اور رابطہ نہریں بنائے گا‘ یہ نہریں‘ بیراج اور ڈیم پاکستان کی آبی ضروریات پوری کریں گے‘ ورلڈ بینک ان منصوبوں کےلئے 1070 ملین ڈالر قرض دے گا‘ 870 ملین ڈالر پاکستان اور 200 ملین ڈالر بھارت میں خرچ ہوں گے‘ معاہدہ ہو گیا‘ بھارت کا خیال تھا پاکستان دس برسوں میں تین ڈیم‘ پانچ بیراج اور سات رابطہ نہریں نہیں بنا سکے گا چنانچہ پاکستان کے حصے کا پانی بھی بھارت استعمال کرے گا لیکن ہمارے واپڈا نے دس برس میں دریائے جہلم پر منگلا‘ ڈیم‘ دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم‘ سندھ‘ جہلم‘ چناب‘ر اوی اور ستلج پر پانچ بیراج اور چشمہ جہلم لنک‘ تونسہ پنجند لنک‘ رسول قادر آباد لنک‘ قادر آباد بلوکی لنک‘ تریموں سدھنائی لنک‘ میلسی بہاول لنک اور بلوکی سلیمانکی لنک جیسی سات رابطہ نہریں بنا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ جیسی سات رابطہ نہریں بنا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ یہ منصوبہ پاکستان کی تاریخ کے ان چند منصوبوں میں شامل تھا جو پاکستانی قوم کے عزم اور قوت فیصلہ کا گواہ ثابت ہوا۔
یہ منصوبہ وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے بھارت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا‘ بھارت نے فیصلہ کیا ”ہم اب پاکستان کو کوئی نیا ڈیم نہیں بنانے دیں گے“ آپ 1970ءسے لے کر 2016ءتک 46 سال کی پاک بھارت تاریخ دیکھ لیں‘ آپ حیران رہ جائیں گے وہ قوم جس نے 10 سال میں دنیا کا دوسرا بڑا آبی نظام بنایا تھا وہ 46 سال میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا سکی‘ کیوں؟ کیونکہ بھارت نے پاکستان میں کوئی ڈیم نہیں بننے دیا‘ پاکستان جوں ہی کوئی پراجیکٹ شروع کرتا تھا‘ بھارتی لابی پریشر گروپس کو ایکٹو کر دیتی تھی اور یہ گروپس ڈیم کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کر دیتے تھے‘ ہمیں ماننا ہوگا بھارت 46 برسوں سے ان پریشر گروپس پر سرمایہ کاری کر رہا ہے‘ یہ دوسری طرف سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی کر رہا ہے‘ پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کے مطابق دریائے سندھ‘ جہلم اور چناب کا پانی بلاتعطل ملنا چاہیے لیکن بھارت نے 1992ءمیں مقبوضہ کشمیر کے ضلع ڈوڈا میں دریائے چناب کے ماخذ پر بگلیہار ڈیم بنانے کا اعلان کر دیا‘ یہ منصوبہ 1992ءمیں شروع ہوا‘ 1996ءمیں منظوری ہوئی اور یہ ڈیم 1999ءمیں بننے لگا‘ پاکستان نے شدید احتجاج کیا لیکن احتجاج کے باوجود ڈیم کا پہلا فیز 2004ءاور دوسرا فیز 2008ءمیں مکمل ہو گیا‘ یہ ڈیم بھارت کو 450 میگاواٹ بجلی اور 50 ہزار میگاواٹ تسکین دے گا‘ کیوں؟ کیونکہ بگلیہار ڈیم کی وجہ سے پاکستان کا تین لاکھ 21 ہزار ایکڑفٹ پانی کم ہو گیا جس کے نتیجہ میں ہماری 13 لاکھ ایکڑ زرعی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں‘ بھارت نے اس کے بعد 2007ءمیں دریائے جہلم کے ماخذ پر کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ شروع کر دیا‘ یہ پراجیکٹ مقبوضہ کشمیر میں بندی پور کے قریب شروع ہوا‘ بھارت کشن گنگا کے ذریعے دریائے جہلم کا پانی 24 کلو میٹر لمبی سرنگ میں پھینکے گا اور یہ وہاں سے پانی کو بھارتی علاقوں کی طرف موڑ لے گا‘ کشن گنگا کی وجہ سے پاکستان میں نیلم جہلم پراجیکٹ کا پانی 16 فیصد کم ہو گیا‘ ہم ہر سال 8 ارب روپے نقصان برداشت کر رہے ہیں جبکہ مستقبل میں نیلم جہلم کی بجلی کی پیداوار دس فیصد کم ہو گی‘ جہلم ویلی کے جنگلات‘ زرعی زمینیں اور ماحولیات پر بھی خوفناک اثرات مرتب ہوں گے‘ پاکستان ابھی کشن گنگا پر احتجاج کر رہا تھا کہ بھارت نے جون 2013ءمیں مقبوضہ کشمیر کے ضلع کشتواڑ میں ریتلے ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ بھی شروع کر دیا‘ یہ کشن گنگا اور بگلیہار سے تین گنا بڑا منصوبہ ہے‘ یہ 2018ءتک مکمل ہو گا اور اس کے بعد دریائے چناب کے ہیڈ مرالہ پر پانی کا بہاﺅ 40 فیصد کم ہو جائے گا یوں پنجاب اور سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمینیں بنجر ہو جائیں گی‘بھارت 2022ءتک پاکستان کے پانیوں سے 32 ہزار میگاواٹ بجلی بنانا چاہتا ہے ‘ یہ پانیوں کا رخ بھی پاکستان سے بھارت کی طرف موڑنا چاہتا ہے‘ یہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کےلئے ترسانا چاہتا ہے لیکن ہم سوئے ہوئے ہیں‘ ہم بھارتی لابی کے دباﺅ میں دریائے سندھ پر ڈیم بھی نہیں بنا رہے اور دوسری طرف ہم چناب اور جہلم پر تین بڑے بھارتی ڈیموں پر عالمی رائے عامہ بھی ہموار نہیں کر سکے‘آپ پاکستانی غفلت اور مجرمانہ خاموشی کا اندازہ لگائیے‘ جماعت علی شاہ پاکستان کے انڈس واٹر کمیشن کے سربراہ تھے‘ پاکستان نے 2005ءمیں بگلیہار ڈیم کے خلاف ورلڈ بینک میں اپیل کی‘ جماعت علی شاہ نے امریکی وکیل جیمز کرافٹ کو ہائر کیا‘ یہ وکیل بھارت سے مل گیا‘ ہم کیس ہار گئے‘ پاکستان نے 2010ءمیں کشن گنگا کے خلاف عالمی عدالت کے دروازے پر دستک دی جماعت علی شاہ نے مخالفت کے باوجود یہ کیس بھی جیمز کرافٹ کو دے دیا‘ ہمارا وکیل یہ کیس بھی ہار گیا‘ وفاقی حکومت کو دسمبر 2010ءمیںسازش کی بو آئی تو اس نے جماعت علی شاہ کو عہدے سے ہٹا دیا‘ یہ صاحب آج کل ٹیلی ویژن چینلز پر سندھ طاس معاہدے پر تبصرے کر رہے ہیں۔
ہمیں آج کے دن چند باتیں پلے باندھنا ہوں گی‘ بھارت سندھ طاس معاہدہ منسوخ نہیں کر سکتا‘یہ عالمی معاہدہ ہے اور کوئی ملک عالمی معاہدے سے نکلنے کی غلطی نہیں کر سکتا چنانچہ ہمیں سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کا کوئی خطرہ نہیں لیکن ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا رہے گا‘ یہ پاکستانی دریاﺅں پر ڈیم بناتا چلا جائے گا یہاں تک کہ پاکستان پانی کے خوفناک بحران کا شکار ہو جائے گا اور یہ پانی کےلئے بھارتی شرائط ماننے پر مجبور ہو جائے گا‘ امریکا‘ ورلڈ بینک اور عالمی عدالت اس معاملے میں بھارت کو سپورٹ کرے گی‘ چین بھارت کے دوسرے بڑے دریا برہم پترا کا پانی روک کر ہماری مدد کررہا ہے‘ برہم پترا بھارت کی پانچ ریاستوں کے درمیان سے گزرتا ہے‘ اس کا بڑا ماخذ دریا ایک بڑا ماخذ دریا ژینگبو(Yarlung Zangbo) ہے‘ یہ دریا تبت میں ہے‘ چین اس پر بہت بڑا ڈیم بنا رہا ہے‘ یہ ڈیم برہم پترا کا 34 فیصد پانی روک لے گا‘ بھارت اس منصوبے سے پریشان ہے‘ یہ ہمارے لئے چین کی طرف سے بڑی سفارتی مدد ہے‘ ہمیں اس مدد کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے‘ ہمیں چین بھارت تنازعہ حل ہونے سے پہلے فوری طور پر بڑے ڈیم‘ بیراج اور نہریں بنالینی چاہئیں اور پاکستان میں پانی کی ایمرجنسی بھی نافذ ہونی چاہیے ‘ حکومت آل پارٹیز کانفرنس بلائے‘ دس سال کا آبی ایجنڈا بنائے اور پانی پر کام شروع کر دے‘ میں دل سے سمجھتا ہوں ہم نے اگر آج یہ فیصلہ نہ کیا توہماری بقا کا بٹن بھارت کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور ہم گھروں میں بیٹھے بیٹھے بھارت سے شکست کھا جائیں گے ‘ یہ جاگنے کا وقت ہے‘ ہمیں جاگنا ہو گا‘ یہ وقت دوبارہ نہیں آئے گا اور ہم پانی کے محتاج ہو جائیں گے چنانچہ جاگ جائیے‘ پانی کو محفوظ کیجئے ورنہ ہم پانی پانی کو محتاج ہو جائیں گے۔
نوٹ: میرے دوست فاروق عادل نے کالم ”جنرل ضیاءالحق بن جائیں“ میں دو غلطیوں کی نشاندہی کی‘ کوسی جین روس کے صدر نہیں تھے‘ وزیراعظم تھے‘ دوسرا شاہ فیصل 1975 ءمیں قتل ہو گئے تھے‘ بھٹو کی حوالگی کی پیش کش شاہ خالد اور یاسر عرفات نے کی تھی‘ میں تصحیح پر فاروق عادل کا مشکور اور قارئین سے معذرت خواہ ہوں۔
پانی پانی کے محتاج
4
اکتوبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں