ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

جس سیاستدان کے بزرگوں نے آئین پاکستان پر دستخط کئے وہ آج آئین پاکستان کو کالا قانون کہہ کر مخالفت کر رہے ہیں ۔۔۔! قومی اسمبلی میں کس سیاستدان کو بری طرح دھویا گیا ؟

datetime 1  اکتوبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آئی این پی ) قومی اسمبلی میں جمعیت علمااسلام (ف) کے بعد پختونخواملی عوامی پارٹی نے بھی فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کردی۔ پختونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکز ئی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے فاٹا کے حوالے سے جو کچھ کہا میں اس کی سو فیصدحمایت کرتا ہوں، فاٹا اصلاحات کی کمیٹی کے فیصلوں کو فاٹا کی عوام پر مسلط نہ کیا جائے،اگر ایسا ہوا توبہت بڑی مزاحمت ہوگی،فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ فاٹا نے پاکستان کو خطرات سے دوچار کیا،یہ رپورٹ پوری دنیا پڑھے گی دنیا کو ہم کیا پیغام دینا چاہتے ہیں،آپ نے خود فاٹا کو میدان جنگ بنایا اور آج ان پر یہ الزامات لگائے جارہے ہیں، جنگ کی طرف نہ جایا جائے،اگر جنگ ہوئی تو پاکستان اور افغانستان دونوں ٹوٹ جائیں گے،حزب اسلامی کے حکمت یا ر اور افغان حکومت کے مابین قیام امن کیلئے ہونے والے معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔تحریک انصاف کی شیریں مزاری،شہریار آفریدی ،پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے محمود خان اچکزائی کے خطاب پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس سیاستدان کے بزرگوں نے آئین پاکستان پر دستخط کئے ۔وہ آج آئین پاکستان کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے اور انگریز کے بنائے ہوئے کالے قانون ایف سی آر کے خاتمے کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ہم پاکستانی ہیں اور ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہے ،فاٹا پاکستان کا حصہ ہے اور اسے آئینی حصہ بنانے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے،ہمیں افغانستان یا کسی اور ملک سے ڈرا کر اپنے ملک کے کسی حصے سے دستبردار نہیں کرایا جاسکتا،فاٹاکے عوام کی اکثریت ایف سی آر کا خاتمہ اور آئین پاکستان کی عمل داری چاہتے ہیں۔
جمعیت علمااسلام (ف) کے رکن جمالدین نے کہا کہ فاٹا کو کسی دوسرے صوبے میں ضم کرنے کی بجائے الگ صوبہ بنایا جائے، ہزارہ کے لوگ خیبرپختونخوا سے نکلنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا حق ان کو نہیں دیا جا رہا ،جس صوبے سے پہلے کچھ علاقے نکلنا چاہتے ہیں تو اس صوبے میں مزید علاقے کیوں شامل کیے جارہے ہیں،فاٹا کی اپنی حیثیت ہے جس کوبرقراررکھا جانا چاہیے۔ وہ جمعہ کو قومی اسمبلی میں فاٹا اصلاحات پر تیسرے روز بھی بحث جاری رہی ،بحث میں ارکان اسمبلی محمود خان اچکزئی،مولانا جماالیدین،قیصر جمال،شہریار آفریدی اور گلزار خان نے حصہ لیا۔ قبل ازیں وفاقی وزیر جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ کی تحریک پر ایوان نے وقفہ سوالات معطل کر کے فاٹا اصلاحات رپورٹ پر بحث کرنے کی اجازت دی گئی،بحث آئندہ ہفتے بھی جاری رہے گی۔جمعہ کو بحث کا آغاز کرتے ہوئے تحریک انصاف کے قیصر جمال نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ فاٹا اصلاحات صرف اصلاحات تک ہی رہیں گی ان پر عملدرآمد نہیں ہوگا،حکومت کو فاٹا اصلاحات کے نفاذ اور اس پر عملدرآمد پر توجہ دینا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ فاٹا میں دہشتگردوں کی کارروائیوں میں شہید ہونے والے لوگوں کیلئے کوئی سکیم نہیں لائی گئی،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور بیت المال کے فنڈز میں ایسے لوگوں کیلئے بھی سالانہ فنڈز رکھے جائیں۔انہوں نے کہا کہ فاٹا میں میگاپراجیکٹس کیلئے 100ارب روپے رکھے جائیں گے تو وہاں ان منصوبوں کی سیکیورٹی کیلئے فوج کو بھی رکھا جائے اور فاٹا میں کرپشن کو روکنے کیلئے نیب کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے۔جمعیت علماء اسلام ف کے رکن جمال الدین نے کہا کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم نہ کیا جائے،فاٹا اصلاحات کمیٹی نے وہاں کے مقامی لوگوں کی بجائے کچھ عمائدین سے ملاقاتیں کی۔انہوں نے کہا کہ فاٹا کو کسی دوسرے صوبے میں ضم کرنے کی بجائے الگ صوبہ بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہزارہ خیبرپختونخوا سے نکلنا چاہتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا حق ان کو نہیں دیا جاتا،جس صوبے سے پہلے کچھ علاقے نکلنا چاہتے ہیں تو اس صوبے میں مزید علاقے کیوں شامل کیے جارہے ہیں،فاٹا کی اپنی حیثیت ہے جس کوبرقراررکھا جانا چاہیے،فاٹا میں جتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں پوری دنیا میں اور کہیں بھی نہیں ہورہی۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجود پاکستان مہاجرین کو وانا اور میران شاہ کے راستے واپس آنے دیا جائے کیونکہ افغان حکومت ان کو تنگ کر رہی ہے۔
پختونخواملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ایسی کیا جلدی تھی کہ ملک اس وقت بحرانی کیفیت میں ہے اور اس وقت ایسا علاقہ جس کی ملکی اور بین الاقوامی اہمیت ہے اس پر قومی اسمبلی میں بحث کروائی جا رہی ہے؟ملک میں کچھ لوگوں نے سچ کہنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔مولانا فضل الرحمان نے فاٹا کے حوالے سے جو کچھ کہا میں اس کی سو فیصدحمایت کرتا ہوں، جب انگریز اس علاقے میں آیا تو دونوں کشمیر ،دونوں پنجاب ،سندھ اور بلوچستان میں افغانوں کی کالونیاں تھیں۔انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ فاٹا نے پاکستان کو خطرات سے دوچار کیا،یہ رپورٹ پوری دنیا پڑے گی دنیا کو ہم کیا پیغام دینا چاہتے ہیں،آپ نے خود فاٹا کو میدان جنگ بنایا اور آج ان پر یہ الزامات لگائے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کمیٹی نے فاٹا ایجنسیوں کے لاکھوں کی تعداد میں آباد لوگوں میں سے 100سے 200لوگوں کی رائے جانی جو وہاں کے لوگوں سے ناانصافی ہے،باجوڑ سے لے کر ساؤتھ وزیرستان میں رہنے والے لوگوں کی قسمت کا فیصلہ عجلت میں نہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ 1979میں افغانستان سے جو آخری ٹکڑا کاٹا گیا وہ خیبر اور بلوچستان کے بلوچ علاقے تھے۔انہوں نے کہا کہ باجوڑ سے جنوبی وزیرستان میں جو قتل ہوا ہے اس کا ایک ماہ میں قاتل پکڑا گیا،فاٹا میں لوگ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں یہاں تک کہ ایک دوسرے کی بکریوں کو بھی جانتے ہیں،فاٹا میں رات کے اوقات میں آج تک کسی عورت پر حملہ نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کی کمیٹی کے فیصلوں کو فاٹا کی عوام پر مصلت نہ کیا جائے،اگر ایسا ہوا توبہت بڑی مزاحمت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ خاصا دار فورس فرنٹ لائن پر لڑ رہی ہے مگر آج تک خاصہ دار فورس کے شہید اہلکاروں کیلئے کوئی گرانٹ نہیں دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا کیلئے الگ الگ گورنر مقرر کیا جائے،اور فاٹا میں انتخابات کے ذریعے گورنر منتخب کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ مائنس ون پیپلزپارٹی کی باتیں کی گئیں اس سے کیا ملا ہمیں؟مائنس نوازشریف اور مائنس الطاف حسین جیسی باتیں نہ کی جائیں،اگر پاکستان کو بچانا اور چلانا ہے تو آئین پر عملدرآمد کروایا جائے اور آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف سب کو متحد ہوکر کھڑے ہوجانا چاہیے،اگر ایسا نہیں کرنا تو میرا کیا ہے ایک چادر ہے میرے پاس وہ لیکر وزیرستان،کابل یا کہیں اور چلاجاؤں گا،حزب اسلامی کے حکمت یا ر اور افغان حکومت کے مابین قیام امن کیلئے ہونے والے معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جنگ کی طرف نہ جایا جائے،اگر جنگ ہوئی تو پاکستان اور افغانستان دونوں ٹوٹ جائیں گے۔ اس موقع پر نکتہ اعتراض پر تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ محمود خان اچکزئی نے جو کہا ان پر تحفظات ہیں،پاکستان اب آزاد ملک ہے،فاٹا پاکستان کا حصہ ہے،ہم فاٹا کے لوگوں کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں،یہ فاٹا کے لوگوں کے مستقبل کا معاملہ ہے،اگر یہاں بات نہیں ہوگی تو اور کہاں ہوگی،بھارت نے اپنے قیام کے بعد 5سے 6صوبے بنائے،کچھ لوگ خود اس معاملہ کو عالمی سطح پر لیجانا چاہتے ہیں ۔جس پر محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میں صرف اتنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ جو کچھ بھی ہو فاٹا کی عوام کی خواہشات کے مطابق ہو۔ آفتاب خان شیرپاؤ نے کہا کہ فاٹا کے ارکان کو ایک بار پھر بولنے کی اجازت ہونی چاہئے اس لئے فاٹا پر بحث آج سمیٹنے کی بجائے اسے اگلے جمعہ تک جاری رکھا جائے۔ شازیہ مری نے کہا کہ ہمیں بھی محمود اچکزئی کے خطاب پر تحفظ ہیں۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ پارلینمٹ کے باہر ایک بڑی سیاسی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے بھارت نے لائن آف کنٹرول پر سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا ہے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نے اس بارے ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا ۔ مسرت احمد زیب نے کہا کہ عقبی نشستوں والوں کو بھی موقع ملنا چاہئے شہریار آفریدی نے کہا کہ فاٹا بارے اصلاحات ممیں وہاں کے عوام کو اعتماد ممیں لیا جانا چاہئے۔ فاٹا کو مقبوضہ کشمیر سے اس ایوان میں تشبیہ دی گئی جس کی ہم مذمت کرتے ہیں جن کے بزرگوں نے آئین پاکستان پر دستخط کئے وہ آج کس طرح ایف سی آر کی حمایت کررہے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کے شناختی کارڈ بلاک کئے جارہے ہیں خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے ہم باہیں پھیلا کر فاٹا کو کے پی کے میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ پولیٹیکل ایجنٹ کے لامحدود اختیارات ہیں وہ اپنے علاقے کا ڈان بنا ہوا ہے۔ فاٹا کے عوام کو اصلاحات پر اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا۔ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کرائے جانے چاہیں سراج حمد خان نے کہا کہ محمود اچکزئی کی تقریر پر بے جا تحفظات ظاہر کئے جارہے ہیں۔
گلزار خان نے کہا کہ فاٹا اصلاحات پر تمام فاٹا ایجنسیوں کے عوام سے مشاورت کی جانی چاہئے تھی۔ فاٹا کے نمائندے تو ایف سی آر کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن متبادل نظام بھی وضع کیا جانا چاہئے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرہ کار وہاں بڑھانے پر سب متفق ہیں ۔ ایک ملک میں دو نظام نہیں چل سکتے۔ قائد اعظم نے قبائلیوں سے جو معاہدہ کیا تھا اس میں یہ تھا کہ جب تک قبائلی عوام عام قوانین سے متفق نہیں ہوتے تب تک وہاں آئین کا دائرہ کار نہیں بڑھانا چاہئے وہ حالات کے مطابق معاہدہ تھا اب ستر سال بعد قبائلی علاقے کو مین سٹریم ممیں لانا ضروری ہے اب وقت ہے کہ قبائلی علاقوں میں آئین کا دائرہ بڑھایا جائے فوری طور پر آئینی ترمیم کرکے ان علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے پانچ سال کا وقت طے کیا جائے کمیٹی نے اچھی تجاویز دیں۔ ان علاقوں کو قابل تقسیم محاصل میں تین فیصد حصہ ملنا چاہئے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…