لاہور( این این آئی) پاکستان میں پاک ترک سکولز کی انتظامیہ نے 28 سکولز اور کالجز کے ترک پرنسپلز کو عہدے سے ہٹادیا گیاجبکہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کو بھی تحلیل کردیا گیا ہے جس میں ترک باشندوں کی بھی نمائندگی تھی۔ایک میڈیا رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایاگیا ہے کہ ترک حکومت نے تجویز دی ہے کہ ان تعلیمی کا انتظام ایک غیر ملکی این جی او کے سپرد کردیا جائے جس کے اردگان انتظامیہ کے ساتھ اچھے روابط ہیں۔سکولز سسٹم کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ ترکی کے وہ شہری جو پہلے پاک ترک سکولز میں انتظامی عہدوں پر فائز تھے اب اساتذہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیں گے۔پاک ترک سکولز اب بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم (این جی او)پاک ترک انٹرنیشنل ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت رجسٹرڈ نہیں رہے اور اب وہ مقامی تنظیم پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیر انتظام کام کریں گے۔عہدیدار نے مزید بتایا کہ ان سکولز کا انتظام چلانے کیلئے چھ ارکان پر مبنی نیا بورڈ آف ڈائریکٹرز تشکیل دیا گیا ہے جس میں کوئی ترک شہری شامل نہیں۔ادارے کے ایک اورسینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ سکولز سسٹم میں میں بڑے پیمانے پر ہونے والی تبدیلی کے بعد یہ بعد خارج از امکان نہیں کہ سکولوں کو بند کردیا جائے یا پھر ان کا انتظام حکومت کی حمایت یافتہ کسی اور تنظیم کے حوالے کردیا جائے۔مزید بتایاگیا ہے ابتدا ء میں پاکستان میں عالمی معیار کے کیمپس کے قیام کیلئے ترکی سے فنڈز آتے تھے لیکن گزشتہ 15 برس سے ادارہ اپنے اخراجات کیلئے فنڈز خود اکھٹے کررہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاک ترک اسکولز نیٹ ورک 35 فیصد طلبا کو مفت تعلیم اور قیام و طعام کی سہولت فراہم کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ذہین طالب علموں کو بیرون ملک تعلیم کیلئے اسکالر شپ بھی دی جاتی ہیں۔28 اسکولز اور کالجز کا یہ نیٹ ورک لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان ، کراچی، حیدرآباد، خیرپور، جامشورو اور کوئٹہ میں پھیلا ہوا ہے جس میں 1500 ملازمین ہیں اور ان میں سے 150 ترک شہری ہیں، ان تعلیمی اداروں میں مونٹیسری سے اے لیول تک 11 ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔پاک ترک سکولز میں کام کرنے والے ترک شہریوں کو نکالنے کے حوالے سے حکومت کو ترک حکام کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ان سکولز سے وابستہ ترک شہریوں کے پاس پاکستان کا ویزا موجود ہے ان میں سے کچھ کے ویزے کی معیاد ختم ہونے میں ایک سال ہے جبکہ بعض نے اس میں توسیع کی درخواست بھی دے رکھی ہے۔انہوں نے بتایا کہ سکولز کے ترک سٹاف کو یہ خدشہ ہے کہ اگر وہ ترکی واپس گئے تو انہیں اردگان انتظامیہ کی جانب سے کارروائی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے کہ کیونکہ پاک ترک سکولز پہلے جس این جی او سے رجسٹرڈ تھے اس کے اردگان کے سیاسی مخالف فتح اللہ گولن سے روابط تھے۔پاک ترک سکولز کے ترک ملازمین کے ویزا کے حوالے سے جب دفتر خارجہ کے ترجمان سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔سکولز کی انتظامیہ نے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کررکھی ہے جس میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ حکومت کو کسی بھی ایسے غیرقانونی اقدام سے روکنے جس کی وجہ سے ان تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے مستقبل پر کوئی آنچ آئے۔یاد رہے کہ ترکی نے جولائی میں بغاوت کی ناکام کوشش کے پیچھے امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے والے مبلغ فتح اللہ گولن کو ذمہ دار قرار دیا تھا اور اس نے پاکستان سے بھی مطالبہ کیا تھا کہ وہ گولن سے وابستہ تعلیمی اداروں کو بند کرے۔اسلام آباد کے دورے پر آنے والے ترک وزیر خارجہ میلود چاووش اوغلو سے پاکستان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاک ترک سکولز کے نیٹ ورک کی تحقیقات کرے گا۔