اسلام آبا د(این این آئی) وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ترکی سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے اب تک 100 مشاق طیارے لینے کے آرڈز موصول ہو چکے ہیں‘ پاکستان میں تیار ہونے والے اسلحے کی کسی بھی قسم کی غیر قانونی تجارت نہیں ہو رہی ہے ٗہمارے پاس تیار ہونے والے اسلحے کا کوئی غلط استعمال نہیں ہورہا ہے ۔ وہ منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی دفاعی پیداوار کے اجلاس میں گفتگو کررہے تھے۔ اجلاس کی صدارت چیئرمین کمیٹی سہیل منصور نے کی جبکہ وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین کے علاوہ سیکرٹری وزارت دفاعی پیدوار لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد اویس ‘ایم ڈی مشین گن فیکٹری لطیف خالد‘اراکین کمیٹی محمد خان ڈھا‘چوہدری حامد حمید ‘محمد معین وٹو ‘عامرہ خان ‘رانا محمد قاسم نون سمیت وزارت دفاعی پیدوار اور قومی اسملبی سیکرٹریٹ کے افسران اس موقع پر موجود تھے۔ رکن قومی اسمبلی نوید قمر کمیٹی کی خصوصی دعوت پر اجلاس میں شریک ہوئے۔ کمیٹی کے اجلاس کے دوران غیر ریاستی عناصر کے پاس اسلحہ کی نوعیت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین بتایا کہ پاکستان آرڈیننس فیکٹریز میں تیار ہونے والا اسلحہ جدید اور عالمی معیار کا ہے‘ ہمارے پاس تیار ہونے والے چھوٹے ہتھیار دنیا کے کئی ممالک خرید رہے ہیں‘ اس وقت بھی پی او ایف میں مختلف ممالک کے آڈرز پر کام جارہی ہے ‘پی او ایف میں تیار ہونے والے اسلحے کے اوپر مارکنگ اور سیریل نمبر درج ہوتا ہے ‘ہمارے پاس تیار ہونے والے اسلحے کا کوئی غلط استعمال نہیں ہورہا ہے ۔وزارت دفاعی پیدوارا کی جانب سے کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ پاکستان میں تیار ہونے والے اسلحے کی کسی بھی قسم کی غیر قانونی تجارت نہیں ہو رہی۔ کمیٹی کے بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے ڈیجیٹل اسلحہ لائسنسگ کے اجراء سے ملک کے اندر استعمال ہونے والے اسلحہ کی تعداد اور نوعیت کا تعین ہوجائیگا ۔پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے نمائندے نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ پی او ایف جو بھی اسلحہ برآمد کرتا ہے ‘اسلحہ کے اوپر ہی پی او ایف اور سیریل نمبر لگائے جاتے ہیں۔انہوں نے بتا یا کہ تین سال قبل پی او ایف میں تیار ہونے والے چھوٹے ہتھیاروں کی برآمدات 20سے 25ملین روپے تھی لیکن تین سالوں کے دوران برآمدات 100 ملین سے بھی بھی بڑھ چکیں ہیں‘ مالی سال 2016-17ء میں برآمدات کا ہدف 150ملین حاصل کرنے کیلئے پی او ایف تیزی سے اپنا کام کر رہی ہے اور مسلح افواج کے علاوہ صوبائی حکومتوں اور قانون نافذکرنے والے ادارں کی ضروریات بھی پوری کر رہے ہیں ۔وفاقی وزیر دفاعی پیدوار نے اس موقع پر کہا کہ تین سال پہلے اور آج کے دفاعی اداروں کی پیدوار میں بہت فرق ہے ‘ہمیں خسارے میں ملنے والی شپ یارڈ کو منافع بخش ادارہ بنا دیا ہے‘اس وقت کراچی شپ یارڈ 4بلین منافع دے رہی ہے‘موجودہ جمہوری اور عوام دوست حکومت کے پہلے تین سالوں کے دوران اب تک ترکی سمیت دیگر ممالک نے پاکستان سے سپر مشاق طیارے حاصل کرنے کے لئے رجوع کیا ہے‘ اب تک ہمیں 100سپر مشاق طیارے تیار کرنے کے آرڈر باضابطہ موصول ہو چکے ہیں جن کی تیاری کا کام بھی شروع کر دیا گیا ہے ٗ ایم این اے نوید قمر نے کہا کہ اگر دنیا کے 110ممالک نے آرمز ٹریڈ ٹریٹی پر دستخط کر لئے ہیں تو پاکستان نے ابھی تک کیوں نہیں کئے جس پر کمیٹی کے چیئرمین نے وفاقی وزیر دفاعی پیداوار سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا مینڈیٹ نہیں ہے اس کا جواب وزارت خارجہ ہی دے سکتی ہے‘ اگر دفاعی پیداوار کے کسی بھی ادارے میں غیر ملکی آرڈر آتا ہے تو ہم وزارت خارجہ سے رجوع کرتے ہیں‘ آرمز ٹریڈ ٹریٹی کے حوالے سے پالیسی بنانا وزارت دفاعی پیداوار کا مینڈیٹ نہیں ہے جس پر کمیٹی کے چیئرمین سہیل منصور نے سیکرٹری وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کے متعلقہ حکام کو آئندہ اجلاس میں مدعو کرنے کیلئے خط لکھنے کی ہدایت دی۔ وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے اجلاس کو بتا یا کہ وزارت دفاعی پیدوار نے تو یہ بھی تجویز دی تھی کہ کار آمد لائسنس کی تصدیق وزارت داخلہ سے کرنے کے بعد پی او ایف کو چھوٹے ہیتھار دینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ کمیٹی کے چیئرمین سہیل منصورنے وزارت دفاعی پیداوار کے مجموعی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزارت دفاعی پیداوار جس انداز میں آپریشن ضرب عضب‘ مسلح افواج کی ضروریات پوری کرنے اور درآمدات کر رہی ہے وہ قابل تحسین امر ہے۔