اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ملک میں مہنگائی کے حوالے سے ہونے والی تنقید کو بے جا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افراط زر کی موجود شرح 3 فیصد سے کم اور قیمتوں میں استحکام ہے ٗبجٹ کے حوالے سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ہونے والی بحث اور تجاویز غور سے سنی اور ان کا جائزہ لیا، تجاویز پر حکومت کا نقطہ نظر پیش کرنے کے بعد دونوں ایوانوں اور ملک بھر سے موصول ہونے والی تجاویز کی روشنی میں بجٹ میں کچھ ترامیم بھی پیش کروں گا ٗ حکومت کی 3 سالہ کارکردگی اور موجودہ بجٹ میں دی گئی سہولیات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مہنگائی کے حوالے سے ہونے والا تبصرہ ٹھیک نہیں ٗ سینٹ سے موصول ہونے والی 139 میں سے 86 سفارشات کو کلی یا جزوی طور پر منظور کرلیا گیا ہے‘ سرکاری ملازمین کو 2015-16ء میں دیا جانے والا 7.5 فیصد ایڈہاک ریلیف بنیادی تنخواہ میں ضم کیا جارہا ہے ٗ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 3 ایڈہاک ریلیف بنیادی تنخواہ میں ضم ہونگے‘ اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے وزیراعظم کی وطن واپسی پر ان سے بات کرکے فیصلہ کیا جائیگا‘ کھادوں پر سیلز ٹیکس میں کمی کے نفاذ پر صدر مملکت کی جانب سے فنانس بل پر دستخط کے ساتھ ہی عملدرآمد ہو جائیگا ٗ ہماری بہادر افواج فاٹا میں دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہیں ٗکامیابیاں مل رہی ہیں ٗحکومت ہر ممکن مدد فراہم کرتی رہے گی۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہاکہ حکومت کی تین سالہ کارکردگی اور بجٹ میں دی گئی مراعات سے مہنگائی کے بارے میں باتیں درست نہیں۔ 2008ء میں افراط زر 25 فیصد تھا۔ 2013ء تک اوسطاً 12 فیصد رہا۔ اب تین فیصد سے کم اور قیمتوں میں استحکام ہے۔ ہم نے مسلسل ایسی پالیسیاں اپنائیں کہ جس سے مہنگائی کی شرح کم رہے۔ حکومت تجارتی خسارہ کو تین سال کے عرصہ میں 4.3 فیصد کی سطح پر لے آئی ہے۔ آئندہ مالی سال میں اس کو 3.8 فیصد تک لائیں گے ، حکومت نے کسان کی پیداواری لاگت کم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نواز شریف کی رہنمائی میں وسیع تر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے تین سالوں میں کوششیں کیں ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں انفرادی تجاویز پر بات ممکن نہیں ، 139 سفارشات موصول ہوئیں جن میں 34 مکمل‘ 30 اصولی اور 22 تجاویز کو جزوی طور پر منظور کرلیا گیا ہے۔ 53 پر فوری عمل ممکن نہیں۔،ایوان بالا کی 62 فیصد سفارشات منظور کی گئی ہیں،قائد حزب اختلاف کی جانب سے میثاق معیشت پر اتفاق پر ان کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں اور ڈیوٹی میں کمی‘ کرم کش ادویات میں کمی سمیت دیہی معیشت کے لئے کئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں یہ فیشن بن گیا ہے کہ معیشت کے اعداد و شمار پر تحفظات اٹھائے جاتے ہیں یہ قابل تحسین نہیں ہمیں اپنے رویوں اور ملک کے تقدس کا خیال کرنا چاہیے ٗادارہ شماریات کا چیف باقاعدہ حلف لیتا ہے، یہ خودمختار ادارہ ہے ، واضح ثبوت کے بغیر اعداد و شمار پر تحفظات بے معنی ہیں۔ شرح نمو کے حوالے سے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے وہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔ جی ڈی پی 4.1 فیصد رہا جو آٹھ سال میں زیادہ ہے حالانکہ کاٹن کی فصل کو نقصان رہا۔ انہوں نے کہا کہ ترقی کا یہ سفر جاری ہے اور آنے والے سالوں میں معیشت زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرے گی۔ وفاق کے دفاع اور سماجی تحفظ کے منصوبوں میں کوئی صوبائی تفریق نہیں‘ سندھ میں ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں انقلابی تبدیلی لانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں صحت کی سہولیات بہتر بنانے ‘ جدید سفری سہولیات کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اس شعبہ پر کام ہو رہا ہے۔ یہ منصوبے سارے پاکستان پر مشتمل ہیں۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ براہ راست ٹیکس کا تناسب ماضی میں کم رہا،اس پر توجہ مرکوز کی گئی اور تین سال میں اچھا خاصا اضافہ ہوا۔ براہ راست ٹیکس کی شرح بہت جلد تسلی بخش سطح پر پہنچ جائے گی۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہاکہ نان فائلرز کے لئے ٹیکس نیٹ سے باہر رہنا مشکل بنایا جارہا ہے،حکومت کی کوشش رہی ہے کہ کم آمدنی والوں کے زیر استعمال اشیاء پر ٹیکس کی شرح کم رہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ قومی قرضہ کے حوالے سے خاص طبقہ نے غیر ذمہ دارانہ باتیں کی ہیں۔ 1947ء سے لے کر 30 جون 1999ء تک غیر ملکی قرضے 2940 ارب روپے تھے۔ 31 مارچ 2008ء تک یہ قرضے 5800 ارب روپے تک جا پہنچے۔ 2008ء سے 2011 ء تک 14318 ارب روپے تک پہنچ گئے اور اس میں 8518 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ 503 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ فوری واجب الادا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ غیر ملکی قرضوں میں 14 سالوں میں 12000 ارب روپے کے اضافہ کا جواب مشرف دور یا پیپلزپارٹی دے سکتی ہے ہم نہیں دے سکتے۔ انہوں نے بتایا کہ 31 مئی 2016ء تک غیر ملکی قرضے19168 ارب روپے تھے اور ہمارے دور میں 4350 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2014میں سٹیٹ بنک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 2 ارب ڈالر تھے جو 16 جون 2016ء کو 16 ارب 60 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اوراس میں 13 ارب 80 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، کل ذخائر 21 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں اور جلد 22 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم پی ایس ڈی پی کو 300 ارب روپے سے بڑھا کر 800 ارب روپے پر لے گئے۔ بی آئی ایس پی کی رقم میں اضافہ کیا۔ نقل مکانی کرنے والوں پر اربوں روپے صرف کئے۔ پھر بھی فزیکل خسارہ گزشتہ دور سے کم ہے۔ گزشتہ دور میں کئی ہزار ارب روپے کے قرضے لینے والے بتائیں کہ انہوں نے یہ کہاں صرف کئے۔ وزیراعظم نے گزشتہ سال تاریخ کا سب سے بڑا پیکج دیا۔ چاول اور کپاس کے زمینداروں کو سہارا دیا گیا۔ حکومت نے زرعی ٹیوب ویل پر رعایتی بجلی فراہم کی۔ ان تمام اقدامات کا براہ راست مقصد چھوٹے کاشتکاروں کی سہولت تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم کسان کی پیداواری لاگت کم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ کھاد کی قیمتوں میں کمی کر رہے یں۔ یوریا 2200 سے 1800 روپے فی بوری پر آگئی ہے۔ اس بجٹ میں 1400 روپے پر لا رہے ہیں۔ ڈی اے پی 4200 سے کم ہو کر 2800 روپے تک آچکی ہے اس بجٹ میں 300 روپے فی بوری مزید کمی کر رہے ہیں۔ بجٹ میں زرعی ٹیوب ویل پر رعایتی نرخ مزید کم کر رہے ہیں۔ زرعی مشینری کی درآمد پر ٹیکسوں کی شرح 43 فیصد سے کم کرکے 9 فیصد تک لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ ہائیڈل منصوبوں پر حکومت توجہ نہیں دیتی۔ دیامر بھاشا ڈیم کے لئے 32 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ داسو ہائیڈل کے لئے 42 ارب ‘ نیلم جہلم کے لئے 61 ارب روپے‘ تربیلا کے توسیعی منصوبہ کے لئے 16 ارب 50 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ کوئلہ اورمتبادل ذرائع سے بجلی کے منصوبوں پر توجہ دی گئی ہے۔ مارچ 2018ء میں دس ہزار میگاواٹ اضافی بجلی دستیاب ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری بہادر افواج فاٹا میں دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہیں اور اسے کامیابیاں مل رہی ہیں۔ حکومت ہر ممکن مدد فراہم کرتی رہے گی۔ عارضی نقل مکانی کرنے والوں کے لئے جامع پروگرام بنا رہے ہیں۔ ان کی اپنے علاقوں میں واپسی شروع ہے ۔ گزشتہ دو سال میں آپریشن ضرب عضب اور آئی ڈی پی کے لئے 140 ارب روپے فراہم کئے گئے ۔ سو ارب روپے اس بجٹ میں رکھے ہیں۔ ڈیٹ ٹو جی ڈی پی کی رپورٹ 31 جنوری 2016ء کو پیش کی گئی آج یہ شرح 63.3 فیصد تک آگئی ہے۔ آئیں اس کو دو سال میں 60 فیصد تک اور آئندہ چند سالوں میں 50 فید تک لائیں۔ اس میں فنانس بل میں ترمیم بھی شامل ہے ، آئندہ تین سال میں وفاقی بجٹ خسارہ 3.5 فیصد تک رکھا جائے گا۔ اس سلسلے میں ترامیم لائی جارہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آئین سپلیمنٹری گرانٹ کی اجازت دیتا ہے، غیر متوقع اخراجات کے استعمال کو کبھی رد نہیں کیا جاسکتا ، تاہم اس سال اس کی شرح میں کمی گئی ہے ۔ بجلی‘ کھاد‘ گندم‘ چینی کی سبسڈی کے لئے ضمنی گرانٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ قدرتی آفات اور دیگر ایسے ہنگامی حالات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔وزیرخزانہ نے کہاکہ پی آئی اے اور سٹیٹ لائف کی کارپوریٹائزیشن پر کام شروع ہے ، ریلوے میں بہتری آئی ہے، سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے نگرانی کی جارہی ہے، شفافیت کے حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے جو عوام کے لئے ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ پاور سیکٹر کمپنیوں میں بہتری آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوورسائیٹ اور سینٹرل بیس ڈیٹا پر کام کر رہے ہیں، سی پیک پاکستان میں نہیں خطے کے لئے گیم چینجر ہے۔ کاشغر سے یہ سڑک گلگت بلتستان‘ خیبرپختونخوا، بلوچستان‘ سندھ‘ پنجاب سے ہو کر بحیرہ عرب کو پہنچتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت مغربی روٹ کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے اے پی سی پر عمل پیرا ہے۔، این ایف سی ایوارڈ میں تاخیر بجٹ اور وسائل کی تقسیم پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ ماضی میں سولہ سال تک ایک ہی ایوارڈ نافذ رہا۔ حکومت نے 2015ء کو جو 15واں این ایف سی ایوارڈ تشکیل دیا ، صوبائی حکومتوں سے مل کر جتنا جلدی ممکن ہوا نئے این ایف سی کی تشکیل کردیں گے۔ مردم شماری کے لئے سول انتظامات حکومت نے مکمل کرلئے تھے۔ نقل مکانی کرنے والوں کی اپنے علاقوں کو واپسی اور آپریشن ضرب عضب میں فوج کی مصروفیت کی وجہ سے مشترکہ مفادات کونسل میں اس کو ملتوی کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کسانوں کے لئے ٹریکٹروں کی درآمد پر سیلز ٹیکس دس فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کیا جارہا ہے۔ ہارویسٹر کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم‘ لیز لینڈ لیولر پر سیلز ٹیکس ختم کیا جارہا ہے۔ زرعی ادویات پر سیلز ٹیکس مکمل چھوٹ جبکہ کھاد پر سیلز ٹیکس پانچ فیصد لگایا جارہا ہے۔ ڈی پی اے کو بجٹ کی منظوری کے ساتھ ہی عملدرآمد شروع کردیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ زرعی مشینری‘ خام مال اور جتنی مراعات زراعت پر دی جارہی ہیں تمام پر صدر کی جانب سے فنانس بل کی منظوری کے ساتھ ہی عملدرآمد ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کیبل کے نظام کو ڈیجیٹل کرنے کے لئے ریگولیٹری ڈیوٹی ایک سال تک 10 فیصد کی جارہی ہے ۔ سیلز ٹیکس بھی کم کیا جارہا ہے۔ کیبل آپریٹرز پر ٹیکس کی شرح کم کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سم کارڈ اور سمارٹ کارڈ بنانے والی کمپنیوں کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کم کرکے دس فیصد کرنے جارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیری سیکٹرکے لئے آلات پر کسٹم ڈیوٹی کو 17 فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد کیا جارہا ہے۔ مسلح افواج کے نقل و حمل پر چارٹر کی گئی پروازوں پر فیڈرل ایکسائز ٹیکس ختم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر اور ٹیکس گزار کے درمیان تنازعات کے حل کے لئے متبادل کمیٹی کے غیر فعال نظام کو موثر بنانے کے لئے قانونی ترمیم کی جارہی ہے۔ 90 دن میں ایف بی آر کی طرف سے فیصلہ کرنے پر خود بخود فیصلہ ٹیکس گزار کے حق میں ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ فنانس بل کے ذریعے ٹرسٹ کی تعریف کے ابہام کو دور کیا جارہا ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ افراط زر کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔ اس سال افراط زر کی شرح کے مطابق 5 فیصد تک تجویز تھی۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ 2015-16ء کا ساڑھے 7 فیصد اضافہ بنیادی تنخواہ میں ضم کرکے اس پر 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ افواج پاکستان کے جوانوں کا منجمد رہائش الاؤنس دوبارہ شروع کرکے اس کو بڑھایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم این ایز کی تنخواہوں کے حوالے سے قرارداد پر اتفاق کرتا ہوں۔ یہ نامناسب ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی تنخواہیں قومی اسمبلی کے اراکین سے زیادہ ہوں۔ وزیراعظم پاکستان جونہی واپس آئیں ان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھائیں گے اور ان تجاویز کی روشنی میں اس پر نظرثانی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ تین سالہ معاشی طور پر حاصل کردہ اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے سب کردار ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے ان کو درست استعمال سے خودمختار‘ خوشحال پاکستان کے تصور کو عملی شکل دے سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کے حوالے سے شرح زیادہ کرنے کاتاثر دیا جارہاہے جو غلط ہے۔ مارچ 2013ء میں پٹرولیم پر جنرل سیلز ٹیکس 14 روپے 70 پیسے فی لیٹر تھا،آج یہ شرح 9 روپے 36 پیسے ہے،ہائی سپیڈ ڈیزل پر جی ایس ٹی کی شرح 15 روپے ‘ آج 19 روپے 47 پیسے ہے۔ کیرو سین آئل پر مارچ 2013ء میں جی ایس ٹی 14.30 روپے آج 5 روپے 58 پیسے فی لیٹر ہے، ہائی اوکٹین 19.32 آج 10.18 روپے ، لائٹ ڈیزل آئل پر مارچ 2013ء میں 13 روپے 55 پیسے آج ایک روپے 86 پیسے فی لیٹر لے رہے ہیں۔ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی پٹرولیم پر دس روپے 2012ء سے چل رہا تھا۔ آج 9 روپے 68 پیسے لے رہے ہیں۔ ایچ ایس ڈی آٹھ روپے ‘ ہائی اوکٹین پر پی ڈی ایل آج 11 روپے 89 پیسے ہے پہلے 14 روپے تھا۔ لائٹ ڈیزل پر تین روپے تھا ہم پانچ پیسے لے رہے ہیں۔