جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

گرین کریسنٹ ٹرسٹ

datetime 5  جون‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

زاہد سعید ادویات کے کاروبار سے منسلک ہیں‘ یہ انڈس فارما کے نام سے کراچی میں کمپنی چلا رہے ہیں‘ یہ دو نسلوں سے بزنس سے وابستہ ہیں‘ یہ تعلیم سے فراغت کے بعد 1996ءمیں کاروبار میں داخل ہوئے‘یہ جوں ہی والد کی کرسی پر بیٹھے ان کے ذہن میں فلاح و بہبود کا ایک دلچسپ آئیڈیا آیا‘ زاہد صاحب نے کراچی کے چھ بڑے کاروباری اداروں کے نوجوان مالکان کو بلایا اور اپنا منصوبہ ان کے سامنے رکھ دیا‘ یہ لوگ فوراً قائل ہو گئے‘ یوں چھ بزنس مین خاندانوں کے چھ نوجوانوں نے ”گرین کریسنٹ ٹرسٹ“ کی بنیاد رکھ دی‘ تعلیم اس ادارے کا بنیادی مقصد تھا‘ ان لوگوں نے فیصلہ کیا یہ حکومت کی مدد کے بغیر سندھ کے دیہی علاقوں میں سکول بنائیں گے‘ یہ سکول ان انتہائی غریب اور پسماندہ علاقوں میں بنائے جائیں گے جہاں تعلیم کی سہولت موجود نہیں ‘ ان چھ لوگوں نے پیسے جمع کئے اور یہ کراچی ویسٹ اورنگی ٹاﺅن کے بلوچ علاقے میں چلے گئے‘ اس پورے علاقے میں کوئی پڑھا لکھا شخص نہیں تھا‘ لوگ تعلیم بالخصوص بچیوں کی تعلیم کے خلاف تھے‘ یہ لوگ علاقے کے سردار سے ملے‘ سردار بھی غریب آدمی تھا‘ ان لوگوں نے نہ صرف سردار کو سکول بنانے کےلئے رضا مند کر لیا بلکہ وہ اپنی بیٹی رابعہ کو سکول میں داخل کرانے کےلئے بھی تیار ہو گیا یوں زاہد سعید نے ہلال سکول کے نام سے علاقے میں پہلا سکول قائم کیا‘ سکول میں چار سال سے لے کر 14 سال تک کے 50 بچے داخل ہوئے‘ وہ علاقہ مکمل انگوٹھا چھاپ تھا‘ بچے بھی ان پڑھ تھے اور ان کے والدین بھی چنانچہ سکول کو چلانے میں بہت مشکلات پیش آئیں مگر یہ لوگ ڈٹے رہے یہاں تک کہ یہ لوگ کامیاب ہو گئے‘ سردار کی بیٹی رابعہ نے انٹرمیڈیٹ کیا‘ ٹیچنگ کا کورس کیا اور یہ اس وقت گرین کریسنٹ ٹرسٹ کے اسی سکول میں استادہے۔
یہ ٹرسٹ سندھ میں اب تک 145 سکول بنا چکا ہے‘ ان سکولوں میں 32 ہزار طالب علم پڑھتے ہیں‘ یہ تمام سکول چھ بزنس مین فیملیز کی زکوٰة اور صدقات پر چل رہے ہیں‘ ٹرسٹ نے آج تک کسی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے سے مدد نہیں لی‘ یہ لوگ یہ صرف ان علاقوں میں سکول بناتے ہیں جہاں لاءاینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے یا پھر وہ علاقہ شہر سے اتنا دور ہے کہ وہاں حکومت اور استاد دونوں نہیں پہنچ پارہے‘ یہ لوگ مقامی سردار یا وڈیرے کو سکول کا سرپرست بنا دیتے ہیں‘ یہ اسی سے سکول کا افتتاح کراتے ہیں اور سب سے پہلے اس کے بچوں کو داخلہ دیتے ہیں‘ یہ کرائے پر عمارت حاصل کرتے ہیں‘ عمارت کو جدید سکول کی شکل دیتے ہیں‘ اس میں واش رومز اور پانی کا بندوبست کرتے ہیں اور بچوں کو وہ ساری سہولتیں فراہم کرتے ہیں جن کی یہ توقع تک نہیں کر سکتے‘ ہلال سکول کے بچے اور ان کے والدین چٹے ان پڑھ ہوتے ہیں‘ ان لوگوں کو پڑھانا انتہائی مشکل ہوتا ہے چنانچہ ٹرسٹ نے ٹیچنگ ٹریننگ کا ایک ادارہ بھی بنا رکھا ہے‘ یہ ادارہ سی ای آر ڈی (سینٹر فار ایجوکیش‘ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ) کہلاتا ہے‘ یہ ادارہ اب تک ایک ہزار چار سو خصوصی استاد تیار کر چکا ہے‘ یہ ٹرسٹ جتوئی قبیلے کےلئے جتوئی استاد اور چانڈیو قبیلے کے بچوں کےلئے چانڈیو استاد تیار کرتا ہے‘ ٹرسٹ نے 20 برسوں میں کامیابی کی درجنوں داستانی تخلیق کیں‘ ان داستانوں میں ایک داستان تھر بھی ہے‘ تھر ملک کا وہ علاقہ ہے جس میں آج تک حکومت بھی سکول نہیں چلا سکی لیکن ان لوگوں نے نہ صرف وہاں سکول بنائے بلکہ ان سکولوں میں اڑھائی ہزار بچے زیر تعلیم ہیں‘ یہ ٹرسٹ اب تک درجنوں ڈاکٹرز‘ انجینئرز اور گریجویٹ پیدا کر چکا ہے‘ ان میں نوشہرو فیروز کی تحصیل مہران پور کی ایک بچی بھی شامل ہے‘ یہ بچی پولیو کا شکار تھی‘ یہ کمزور ٹانگوں کے باوجود سکول آئی اور یہ اب ڈاکٹر ہے‘ ٹرسٹ کو تھر میں کام کرتے ہوئے دو دلچسپ تجربے ہوئے‘ پہلا تجربہ لوگوں کی غیرت تھا‘ تھر کے لوگ غربت کی نچلی لکیر پر زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ پانی کی نعمت تک سے محروم ہیں مگر ان لوگوں نے اس کے باوجود اپنے بچوں کو زکوٰة کی رقم سے تعلیم دلانے سے انکار کر دیا‘ یہ لوگ سکولوں میں باقاعدہ فیس ادا کرتے ہیں‘ دوسرا تجربہ پانی تھا‘ تھر کے ایک گاﺅں میں پانی نہیں تھا‘ ٹرسٹ نے گاﺅں میں ”بور“ کرایا‘ نلکے کے ساتھ چھوٹی سی ٹینکی بنائی‘ آٹھ ہزار روپے کا جنریٹر لگایا اور پورے گاﺅں کو پانی دے دیا‘ پانی کے اس کنوئیں پر ٹرسٹ کے صرف 80 ہزار روپے خرچ ہوئے‘ ٹرسٹ کو یہاں سے نیا پراجیکٹ مل گیا‘ تھر میں کل 2300 دیہات ہیں‘ یہ لوگ اب تک 400 دیہات کےلئے پانی کا بندوبست کر چکے ہیں‘ یہ گاﺅں میں پانچ لوگوں کی کمیٹی بناتے ہیں‘ یہ کمیٹی کنوئیں کی حفاظت بھی کرتی ہے اور یہ گاﺅں کے تمام لوگوں کو پانی فراہم کرنے کی ذمہ دار بھی ہوتی ہے‘ یہ لوگ کمیٹی کا ڈونر سے براہ راست رابطہ کرا دیتے ہیں‘ تھر میں دو سال قبل خوفناک قحط آیا لیکن اس قحط کے دوران بھی وہ تمام گاﺅں محفوظ رہے جن میں گرین کریسنٹ ٹرسٹ نے پانی کے کنوئیں کھدوائے تھے‘ کیوں؟ کیونکہ قحط کے دوران بھی گاﺅں کے لوگوں اور مال مویشیوں کو پانی ملتا رہا چنانچہ یہ لوگ اور ان کے مویشی دونوں محفوظ رہے۔
یہ گرین کریسنٹ ٹرسٹ کی دو حیران کن کامیابیاں ہیں‘ یہ لوگ وہاں سکول بنا اور چلا رہے ہیں جہاں حکومت کامیاب نہیں ہو سکی‘ یہ لوگ تھر کے ان ریگستانوں میں پانی کا بندوبست کر رہے ہیں جہاں حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں‘ یہ ان لوگوں اور ان کے ماڈل کی کامیابی ہے‘ پاکستان میں آج بھی اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے محروم ہیں‘ یہ پانچ سے چودہ سال کے بچے ہیں‘ یہ تعداد آسٹریلیا کی کل آبادی سے زیادہ ہے‘ گویا ہمارے ملک میں جہالت کا پورا آسٹریلیا تیار ہو رہا ہے اور ہم خاموش بیٹھے ہیں‘ یہ لوگ اپنے وسائل سے جہالت کے اس آسٹریلیا کو چھوٹا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ آپ ان کا کمال دیکھئے ملک میں حالات کی خرابی کی وجہ سے اکثر سرکاری سکول بند ہو جاتے ہیں لیکن ٹرسٹ کا کوئی سکول پچھلے بیس برسوں کے دوران بند ہوا اور نہ ہی کسی جگہ لڑائی جھگڑے کا کوئی واقعہ پیش آیا‘ کیوں؟ ہماری حکومتوں کو اس کیوں کا جواب تلاش کرنا چاہیے‘ یہ لوگ صرف ایک لاکھ روپے میں تھر کے پورے گاﺅں کےلئے پانی کا بندوبست بھی کر دیتے ہیں‘ تھر میں کل 2300 دیہات ہیں گویا حکومت اگر ان کے ماڈل کو کاپی کر لے یا یہ ان لوگوں کو تھر کے تمام دیہات کو پانی سپلائی کرنے کی ذمہ داری سونپ دے تو پورے تھر کو 23 کروڑ روپے میں پانی مل جائے گا‘ حکومت مشکل اور دشوار گزار علاقوں میں سکول بنانے اور چلانے کی ذمہ داری بھی ان لوگوں کو دے سکتی ہے‘ حکومت ان کا ماڈل لے کر اپنے ٹرسٹ بھی بنا سکتی ہے‘ یہ ٹرسٹ ان کی لائنوں پر کام کر سکتے ہیں‘ مجھے یقین ہے یوں تعلیم اور پانی کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو جائے گا‘ حکومت اگر کسی دن دیہات کے سکولوں کا سروے کرائے‘ یہ اگر دیہی علاقوں کی جہالت کی وجوہا ت تلاش کرے تو یہ حیران رہ جائے گی‘ گاﺅں کا اصل مسئلہ جہالت ہوتا ہے اور جہالت کبھی اکیلی نہیں آتی‘یہ اپنے ساتھ دشمنی‘ نسلی عصبیت‘ ضد‘ ظلم اور بیماری بھی لے کر آتی ہے‘ آپ دنیا میں کسی جگہ دیکھ لیں‘ آپ کو جاہل شخص میں ضد بھی نظر آئے گی‘ ظلم بھی‘ جانبداری بھی اور بیماری بھی اور اس جاہل شخص کا کوئی نہ کوئی دشمن بھی ضرور ہو گا‘ حکومتیں اس نفسیات کو سمجھے بغیر سکول بنا دیتی ہیں‘ یہ بھول جاتی ہیں جتوئی قبیلے کے لوگ اپنے بچے چانڈیو استاد کے پاس نہیں بھجوائیں گے‘ یہ دونوں رند کو قبول نہیں کریں گے اور رند بچے استاد کے نام کے ساتھ شاہ کو تسلیم نہیں کریں گے‘ حکومتیں یہ بھی بھول جاتی ہیں قبائل آج بھی اپنے وڈیرے‘ اپنے سردار کو حکومت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں لہٰذا آپ ان کے علاقوں میں وڈیرے کو شامل کئے بغیر سکول نہیں چلا سکیں گے اور گرین کریسنٹ ٹرسٹ نے یہ دونوں کام کئے‘ یہ سکول کو وڈیرے کی سرپرستی میں دے دیتے ہیں‘ یہ چانڈیو بچوں کےلئے چانڈیو استاد ٹرینڈ کر دیتے ہیں اور جتوئی بچوں کو جتوئی ٹیچر فراہم کر دیتے ہیں چنانچہ ان کے سکول بند نہیں ہوتے‘ یہ لوگ کاروباری بھی ہیں‘ یہ چیزوں کی اصل ویلیو اور ان کے آپریشن کو سمجھتے ہیں‘ یہ جانتے ہیں آپ جب تک مقامی لوگوں کو ”اونرشپ“ نہیں دیتے‘ آپ اس وقت تک کوئی منصوبہ نہیں چلا سکتے چنانچہ یہ لوگ 80 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے میں پانی کا کنواں کھدواتے اور پھر یہ کنوئیں مقامی کمیٹی کے حوالے کر دیتے ہیں اور یہ کمیٹی اپنی مدد آپ کے تحت کنواں چلاتی رہتی ہے اور یوں پانی کا مسئلہ مستقلاً حل ہو جاتا ہے جبکہ ان کے مقابلے میں صوبائی حکومتیں ہوں یا پھر وفاقی یہ سالانہ اربوں روپے خرچ کرتی ہیں لیکن عوام کو تعلیم مل رہی ہے اور نہ ہی پانی‘ آپ کسی دن اخبارات کھول کر دیکھ لیجئے‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے سندھ حکومت اب تک تھر میں اربوں روپے خرچ کر چکی ہے‘ وفاقی حکومت بھی اربوں روپے کی گرانٹ دے چکی ہے لیکن قحط بھی اپنی جگہ موجود ہے‘ خشک سالی بھی‘ بھوک بھی‘ اور نقل مکانی بھی‘ کیوں؟ کیونکہ آپ تھر کے حالات اور تاریخ دیکھ کر تھر کے فیصلے نہیں کر رہے‘ آپ یہ جانتے ہی نہیں ہیں تھر کو کیا چاہیے؟ تھر کو صرف پانی چاہیے‘ یہ لوگ پانی کےلئے نقل مکانی کرتے ہیں اور یہ نقل مکانی ان کے جانوروں کو بھی مار دیتی ہے اور ان کے بچوں کو بھی اور یہ لوگ خود بھی پیٹ کی بیماریوں کے شکار ہو جاتے ہیں‘ حکومت اگر گرین کریسنٹ ٹرسٹ کے ساتھ مل کر 2300 دیہاتوں میں پانی کے کنوائیں کھدوا دے اور یہ لانگ ٹرم کے طور پر تھر سے کوئی بڑی نہر نکال دے تو تھر کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ختم ہو جائے گا‘ حکومت اگر اسی طرح سکولوں سے محروم اڑھائی کروڑ بچوں کا ڈیٹا جمع کرے‘ بچوں کے مقام اور آبادی کا تخمینہ لگائے‘ گرین کریسنٹ ٹرسٹ جیسے ادارے تلاش کرے‘ مخیر حضرات کی مدد لے اور تعلیم سے محروم ان بچوں کی ذمہ داری ان لوگوں کو سونپ دے تو ملک میں تعلیمی انقلاب آ جائے گا لیکن اس انقلاب سے پہلے ہمیں یہ ماننا ہوگا ہمارے سرکاری ادارے نااہل ہیں‘ یہ 21 ویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر سکتے چنانچہ حکومتوں کو عوامی مسائل کے حل کےلئے کارپوریٹ سیکٹر کی مدد لینا ہوگی‘ ہمیں یہ مدد فوراً لینی چاہیے‘ یہ ہمارے لوگ ہیں‘ یہ لوگ دل سے اس ملک کو ترقی یافتہ اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ آپ ان کی سپورٹ لیں‘ اس سے پہلے کہ یہ سپورٹ دینے اور آپ سپورٹ لینے کے قابل نہ رہیں۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…