وہ ایک یتیم بچہ تھا. اس کے چچا نے اس کی پرورش کی تھی. جب وہ بچہ جوان ھوا تو چچانے اونٹ، بکریاں غلام دے کر اس کی حیثیت مستحکم کردی تھی. اس نے اسلام کے متعلق کچھ سنا تو دل میں توحید کا شوق پیدا ہوا لیکن چچا سے اس قدر ڈرتا تھا کہ اظہار اسلام نہ کرسکا
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم فتح مکہ سے واپس گئے تو اس نے چچا سے کہا. مجھے برسوں انتظار کرتے گزر گئے کہ کب آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور آپ کب مسلمان ہوتے ہیں لیکن آپ کا حال وہی پہلے کا سا چلا آررہا ہے میں اپنی عمر پر زیادہ اعتماد نہیں کرسکتا.. مجھے اجازت دیجئے کہ میں مسلمان ہو جاؤں
چچا نے جواب دیا. دیکھ ! اگر تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم) کا دین قبول کرنا چاہتا ہے تو میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا تیرے بدن پر چادر اور تہبند تک باقی نہ رہنے دوں گا. اس نے جواب دیا. چچاجان! میں مسلمان ضرور ہوں گا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم) کی اتباع قبول کروں گا.. شرک اور بت پرستی سے بیزار ہوچکا ہوں. اب آپ کا جو منشاء ہے کریں اور جو کچھ میرے قبضہ میں مال و زر وغیرہ ہے سب کچھ سنبھال لیجئے، میں جانتا ہوں کہ ان چیزوں کو آخر ایک روز یہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے اس لیے میں ان کے لئے سچے دین کو ترک نہیں کرسکتا
اس نے یہ کہہ کر ان کے دیے کپڑے بھی لوٹا دیے اور ایک پھٹی پرانی چادر اوڑھ لی. پھر اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا. میں مومن اور موحد ہوگیا ہوں. محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم) کی خدمت میں جانا چاہتا ہوں. ستر پوشی کے لئے کپڑے کی ضرورت ہے مہربانی کرکے کچھ دے دیجیے. ماں نے ایک کمبل دے دیا. اس نے کمبل پھاڑا آدھے کا تہبند بنالیا آدھا اوپر کرلیا اور مدینہ کو روانہ ہو گیا
علی الصبح مسجد نبوی میں پہنچ گیا اور مسجد سے ٹیک لگا کر انتظار میں بیٹھ گیا. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم جب مسجد میں آئے اسے دیکھ کر پوچھا.کون ہو..؟
کہا.میرا نام عبدالعز’ی ہے. فقیر و مسافر ہوں طالب ہدایت ہو کر آپ کے در پر آپہنچا ہوں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم نے فرمایا. آج سے تمہارا نام عبداللہ ہے. “ذوالبجادین” لقب ہے. تم ہمارے قریب ہی ٹھہرو اور مسجد میں ہی رہا کرو.یوں عبداللہ رضی اللہ عنہ اصحاب صفہ میں شامل ہو گئے. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم سے قرآن پاک سیکھتے اور دن بھر عجب ذوق وشوق اور خوشی و نشاط سے پڑھا کرتے
ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ تو نفل نماز پڑھ رہے ہیں اور یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے ذکر کررہا ہے کہ دوسروں کی قرآت میں مزاحمت ہوئی ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم نے فرمایا، عمر ! اسے کچھ نہ کہو! یہ تو اللہ اور اس کے رسول کے لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آیا ہے. عبداللہ رضی اللہ عنہ کے سامنے غزوہ تبوک کی تیاری ہونے لگی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم نے انہیں دعا دیتے ہوے فرمایا. الٰہی! میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ہوں
عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا. یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم ! میں تو شہادت کا طالب ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم نے فرمایا. جب اللہ کے راستے میں نکلو اور پھر بخار آئے اور مرجاؤ تب بھی تم شہید ہوگے. تبوک پہنچ کر یہی ہوا کہ بخار چڑھا اور انتقال کرگئے
بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے دفن کی کیفیت دیکھی ہے. رات کا وقت تھا پہلے وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اترے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما ان کی لاش لحد میں رکھ رہے تھے. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم بھی ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما سے فرما رہے تھے. اپنے بھائی کو میرے قریب کرو.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم نے قبر میں اینٹیں بھی اپنے ہاتھ سے رکھیں اور پھر دعا فرمائی. اے اللہ ! میں ان سے راضی ہوا تو بھی ان سے راضی ہو جا
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں.. “کاش ! اس قبر میں میں دفن کیا جاتا