اسلام آباد ( احمد ارسلان)دنیا کی نظر میں چاہے وہ ایک کہنہ مشق شاعر ہو مگر اس روز وہ ایک معصوم سا چھوٹاسا بچہ تھا۔ اک بچہ جس نے دنیا بھر کی ماﺅں سے دنیا بھر کے بچوں کا خوبصورت رشتہ یا یوں کہہ لیجئے کہ ماں کی اپنے جگر کے ٹکڑوں کے ساتھ قلبی انسیت کو اپنے ایک شعر میں سمو کر اس شعر کو لازوال کر دیا۔
اس نے کہا تھا۔۔۔!
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
آج ماﺅں سے محبت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ وہاں بھی، جہاں بچوں نے اپنے والدین سے اکتا کر ”اولڈ ہاﺅسز “کی بنیا د رکھی اور یہاں بھی جہاں ایک عرصے سے بچے اپنے ماں باپ کی محبت میں خوبصورت اور پر تعیش ” اولڈ ہاﺅسز “ تعمیر کروا رہے ہیں۔
فہم و ادراک سے بالا تر ہے کہ جب ہم نے انہیں خدمت کا سکھ دینا ہی نہیں ، جب ان ”بوڑھوں “ کا انجام، تنہائی، بے بسی اور جدائی سے آراستہ ایک ”بوڑھا سا گھر“ ہی ہے تو پھر اس عالمی دن کو منانے کی منافقت کیسی ؟۔
آج انہیں ڈھیروں گفٹ دیں گے ، اور کل۔۔۔!
خیر۔۔ چھوڑئیے۔۔ اس طویل بحث کو۔۔
مگرنہیں۔۔! دل یہ بھی کرتا ہے کہ کچھ اور بھی بولا جائے۔
مقام حیرت نہیں ؟ کہ ایک مرد جسے اللہ نے مرد میدان بنایا مگروہ چند ماہ تو دور کی بات چند دن بھی اس بوجھ کو اٹھانے کا اہل نہیں جسے ماں 9ماہ اپنی کوکھ میں بڑی محبت کے ساتھ اٹھائے اٹھائے پھرتی ہے۔
معاشرے میں کہیں پیر کی جوتی اور کہیں غیرت کے نام قتل کردی جانے والی حقیر سی ،بے بس اور لاچار سی عورت اپنی اولاد سے ہی اپنا تمام احوال کہتی ہے۔ انہیں اپنے دکھ بھرے رازوں کا امین بناتی ہے۔ اپنی تمام تر محبت ان پر نچھاور کر دیتی ہے اور پھر دودھ کا قرض یوں اترتا ہے کہ یہ بچے جو بچپن میں کسی کے ساتھ اپنی ماں کو شیئر نہیں کر سکتے تھے وہی اس ناتواں بوجھ کو اتا ر پھینکنے کیلئے اپنی تمام تر توانایاں صرف کر دیتے ہیں اور پھر حالت بالکل یہی ہوتی ہے کہ
کسی کو گھر ملا ورثے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا
میر ے حصے میں ماں آئی
تو جب حالت اتنی نازک ہو یا چلیں آپ یہ کہہ لیں کہ معاشرہ ایسا بے حس ہو چکا ہو تو یقین جانیں کہ دل ہی نہیں کرتا کہ اس نورانی صحیفے کی وہ آیات سنائی جائیں جس میں اِن ماﺅں میں کوٹ کوٹ کر پیار کے انمول خزانے بھرنے والے نے اپنے بندوں سے کہا کہ اپنے والدین کیلئے مجھ سے یہ دعا مانگو۔
” اے میرے رب میرے والدین پر رحم فرما جس طرح بچپن میں انہوں نے مجھ پر رحم کیا“۔
اور ہم خدمت تو خیر دور کی بات دعا کو بھی اپنے لیے بوجھ سمجھتے ہیں۔
ذہن میں کیا کیا خوبصورت واقعات آتے ہیں جنہیں معاشرے کی بے حسی قلم کی نوک سے آگے جانے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔
کہیں رب العز ت موسیٰ علیہ السلام کو کہہ رہے ہیں۔۔! موسیٰ اب ذرا سنبھل کر ہم سے ملاقات کیلئے آنا ، کو ئی غلطی مت کربیٹھنا کیونکہ اب تمہارے پیچھے تمہاری ماں نہیں تو کہیں سرور کائنات ﷺ آنکھوں میں آنسو لئے اپنے غلاموں کو ماں کی شان بتاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگر مجھ محمد کی ماں حیات ہوتیں اور پکارتیں ۔۔محمد۔۔! تو میں نماز میں ان کو جواب دیتا۔
مگر افسوس کہ یہ سب واقعات اب کتابوں کی جلدوں میں ہی مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ہم میں سے کوئی بھی ان کو جاننے کے باوجود ان سے سبق ہی حاصل نہیں کرناچاہتا۔
اور ہم آج جوش و خروش کے ساتھ ماﺅں کا عالمی دن منا رہے ہیں۔
ہما را مشورہ ہے ، بلکہ آج تو ہم آپ سے گزارش بھی کرنے کو تیار ہیں کہ اس بار اپنی اپنی ماﺅں کوتحائف ضرور دیجئیے، مگر دل میں ایک عہد بھی کیجیئے۔۔اک پکا وعدہ۔۔ اپنے دل سے۔۔
اور وہ وعدہ کیا ہے ؟ آپ بخوبی جانتے ہیں۔
اور ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ ماﺅں کی جگہ اولڈ ہاﺅس یا گھر کے کسی کونے میں نہیں ہوتی، ان کی جگہ آپ کے دل کے بعد آپ کی اولین ذمہ داریوں اور آپ کے فرائض میں ہوتی ہے۔اور اپنے فرض کو پورا کرنے والے ہمیشہ کامیاب و کامران رہتے ہیں۔
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش، میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں