لندن: آج کی اس مصروف دنیا میں ہم اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب سے اصل زندگی سے زیادہ سوشل میڈیا کی تخیلاتی دنیا میں رابطہ کرتے ہیں۔ ویسے تو اپنے چاہنے والوں کے ساتھ اکثر رابطے میں رہنے سے خوشی حاصل ہوتی ہے لیکن سائنس دانوں نے ایک نئے مطالعے میں اس خیال کی پڑتال کی ہے کہ کیا دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ زیادہ قربت رکھنے سے آپ کی زندگی لمبی ہو سکتی ہے؟
‘میک گل یونیورسٹی’ کینیڈا کے محققین نےخاندانی تعلقات کی مضبوطی کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے اس تحقیق میں طویل عرصے سے قائم سماجی تعلقات سے بہتر صحت اور لمبی زندگی کے تعلق کے عام تاثر کو چیلنج کیا ہے اور سماجی تعلقات کے ہونے یا نہ ہونے کو موت کی شرح کے ساتھ منسلک کر کے دیکھا ہے۔
اس بین الاقوامی مطالعے کا نتیجہ ایسے بہت سے لوگوں کو سوچ میں مبتلا کر سکتا ہے جو اپنے رشتے داروں کے ساتھ قریبی تعلقات کو خوش حال زندگی کا ضامن تصور کرتے ہیں۔ کیوں کہ سائنسی شواہد سے ظاہر ہوا ہے کہ عزیز و اقارب کے ساتھ بار بار رابطے میں رہنے کا آپ کی عمر اور خوشحالی پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ رشتہ داروں کے ساتھ رابطے میں رہنا اعصابی تناؤ میں اضافہ کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں نے 100جائزوں کا مطالعہ پیش کیا ہے جن میں 17ملکوں کے لگ بھگ چار لاکھافراد شریک تھے۔ اس مطالعے میں سماجی تناؤ کے مختلف اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے جس سے پتا چلا ہے کہ خاندان سے قریبی رابطے کا آپ کی لمبی زندگی پرکم اثر تھا، لیکن دوستوں سے بار بار رابطہ کرنا رشتہ داروں کی نسبت زیادہ فائدہ مند تھا جس سے ایک شخص کی لمبی زندگی کے امکانات میں سات فیصد اضافہ ہوا۔
دوسری جانب رشتہ داروں سے بار باررابطے میں رہنےسےحمایت حاصل ہونے کے بجائے کشیدگی میں اضافہ ہوا جسے تجزیہ کاروں نے شرح اموات کےساتھ منسلک کیا ہے۔
تحقیق کی قیادت کرنے والے پروفیسر ایرن شور نے کہا کہ ”ہمارے نتائج میں سماجی رابطے کی کمی کا شرح اموات پر بہت کم اثر دیکھا گیا ہے. تاہم محقققین نے زوردیا کہ وہ لوگوں کے ساتھ مراسم رکھنے سے منع نہیں کر رہے ہیں کیونکہ لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہنا اچھا ہوتا ہے”۔
میک گل یونیورسٹی کے محققین کے مطابق موجودہ جائزوں میں سے اکثریت کے نتائج میں سماجی رابطے اور لمبی عمر کے درمیان ایک مثبت تعلق کی اطلاع دی گئ ہے۔ لیکن ہمارے مطالعے میں عمر، سماجی و اقتصادی حیثیت اور دائمی امراض جیسے عوامل کو شامل کرنے کے بعد سماجی تعلقات کا لمبی عمر پر معتدل اثر پایا گیا ہے۔
پروفیسر ایرن شور نے روزنامہ ‘انڈیپینڈنٹ’ کو بتایا کہ اگرچہ رابطے سے تنہائی کے احساسات کو کم کرنے کا امکان ہوتا ہے جسے ذہنی اور جسمانی صحت کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے، لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہر بار ایسا ہی ہو۔ کیونکہ ایک شخص بہت سے لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کے باوجود بھی تنہائی محسوس کر سکتا ہے۔ خاص طور پر جب یہ رابطے سطحی ہوں اور اسے مطمئن نہ کرتے ہوں۔
ایسے میں صرف دوسروں کے ساتھ منسلک ہونے سے جذباتی آسودگی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ نتیجتاً ایسے رابطے کسی شخص کو صحت مند زندگی کی طرف دھکیلنے کے لیے کافی نہیں ہوتے لہذا اس شخص کی متوقع زندگی میں اضافے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔
گزشتہ برس تنہائی کے اثرات کے حوالے سے ایک امریکی مطالعے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ تنہائی کا شکار افراد میں قبل از وقت موت کے امکانات دوگنے ہوتے ہیں۔