واشنگٹن(نیوز ڈیسک) امریکی میڈیا کی رپورٹوں میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے کے حوالے سے مذاکرات سے قبل بالخصوص 2014 میں امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی کے ساتھ خفیہ مذاکرات کیے تھے۔امریکی چینل کے مطابق اس خفیہ بات چیت کے نتیجے میں واشنگٹن نے تہران کو اس کے منجمد مالی اثاثوں میں سے 2 ارب ڈالر ادا کیے تھے۔ اس اقدام کا مقصد ان مذاکرات کا شروع کرنا تھا جس کے ذریعے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جون 2015 میں معاہدہ طے پا گیا۔نشر ہونے والی رپورٹ میں باور کرایا گیا ہے کہ اوباما اور ایرانی حکومت کے درمیان خفیہ مذاکرات اور ڈیلوں کے مطابق اوباما انتظامیہ نے ایران کو 2 ارب ڈالر کی رقم 3 قسطوں میں ادا کی۔رپورٹ کے مطابق امریکی پارلیمنٹ کے ریپبلکن رکن مائک بومبیونے کہاکہ اوباما اور ایران کے درمیان خفیہ مذاکرات سے متعلق معلومات وزارت خارجہ سے حاصل کی گئیں۔ بومبیو نے امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ تہران کو ادا کی جانے والی 1.7 ارب ڈالر کی اس رقم کی ادائیگی کے طریقہ کار کا انکشاف کرے۔یاد رہے کہ ماضی میں متعدد امریکی ذرائع نے.. 2013 میں روحانی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اوباما انتظامیہ اور ایرانی حکومت کے درمیان خفیہ مذاکرات ہونے کا انکشاف کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایرانی مرشد اعلی اور امریکی صدر کے درمیان کئی خطوط کا بھی تبادلہ ہوا تھا جن کے ذریعے نیوکلیئر معاہدہ اور تہران کی اپنے متنازعہ نیوکلیئر پروگرام سے دست برداری سامنے آئی۔ یہ پیش رفت امریکا کی جانب سے بین الاقوامی پابندیاں اٹھائے جانے، ایرانی نظام پر حملہ نہ کرنے اور مشرق وسطی میں ایران کے علاقائی کردار کو قبول کرنے کے حوالے سے کیے جانے والے وعدوں کے بدلے میں ہوئے۔