شکاری گھات میں ہیں، گدھ منڈلا رہے ہیں اور کتے لڑ رہے ہیں لیکن یہ 92 سالہ مگابے ان سب کو بتا دینا چاہتا ہے کہ 2018ء میں بھی پارٹی اور زمبابوے کا صدر رابرٹ مگابے ہی ہو گا۔
رابرٹ مگابے نے 1960ء کی دہائی میں زمبابوے کی سفید فام حکومت کیخلاف جدوجہد شروع کی، 70ء کی دہائی میں زمبابوے کا مشہور باغی بن کر ابھرا، 1980ء میں زمبابوے کو آزادی حاصل ہوئی اور رابرٹ مگابے پہلا وزیراعظم بن گیا، وزیراعظم بنتے ہی مگابے نے زمبابوے کو ون پارٹی سٹیٹ ڈکلیئر کر دیا، اس نے شمالی کوریا کی مدد سے ایک ذاتی سکیورٹی فورس’’ 5th بریگیڈ ‘‘تیار کی، 1981ء میں مگابے کی 5th بریگیڈ نے سیاسی قائدین ،قبیلوں کے سردار اورزمبابوے کی تمام طاقتور شخصیات کو چن چن کر قتل کرنا شروع کر دیا،تین سالوں کے دوران زمبابوے میں 50 ہزار افراد کو قتل کیا گیا، 1987ء میں رابرٹ مگابے زمبابوے کا صدر بن گیا، طاقت کو اپنی ذات تک محدود رکھنے کے لئے اس نے ہیڈ آف سٹیٹ، ہیڈ آف گورنمنٹ، کمانڈر انچیف آف آرمڈ فورسز اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جیسے عہدے اپنے پاس رکھ لئے،پچھلے 35 سال سے رابرٹ مگابے زمبابوے کا بلاشرکت غیرے سب سے طاقتور شخص تھا لیکن 2015ء میں مگابے کی گرتی ہوئی صحت نے زمبابوے میں خوفناک صورتحال پیدا کر دی، مگابے کی پارٹی اور ساتھیوں میں جانشینی کیلئے رسہ کشی شروع ہو گئی، پارٹی مختلف دھڑوں میں بٹ گئی،سیاسی لیڈروں میں جوڑ توڑ شروع ہو گیااور ملک بڑی تیزی سے انارکی کی طرف بڑھنے لگا ، رابرٹ مگابے کچھ عرصہ تو خاموش رہا لیکن اچانک فروری 2016ء میں صدر مگابے نے قوم سے خطاب کا اعلان کردیا، سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ صدر مگابے جانشین کا اعلان کریں گے لیکن یہ ان کی بھول تھی جو شخص ہزاروں لاشوں پر پاؤں رکھ کر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوا ہو اتنی آسانی سے اقتدار اور پاور چھوڑ دے گا، رابرٹ مگابے نے اپنا خطاب شروع کرتے ہوئے کہا ’’شکاری گھات میں ہیں، گدھ منڈلا رہے ہیں اور کتے لڑ رہے ہیں لیکن یہ 92 سالہ مگابے ان سب کو بتا دینا چاہتا ہے کہ 2018ء میں بھی پارٹی اور زمبابوے کا صدر رابرٹ مگابے ہی ہو گا‘‘خطاب میں صدر مگابے نے اپنی ریٹائرمنٹ کی ڈیڈلائن دیتے ہوئے کہاکہ وہ 2018ء کا الیکشن لڑے گا اور 2023ء میں جب اسکی عمر 100 سال ہو جائے گی تو یہ ریٹائر ہو جائے گا ،یہ اقتدار کے بھوکے، 92 سالہ بیمار شخص، کمزور ہوتے ہوئے ایک سیاسی لیڈراور اس کی جانشینی کیلئے لڑنے والے ساتھیوں کی ایک دلچسپ کہانی ہے ۔
آج کل ایم کیو ایم میں بھی جانشینی کیلئے ایک ایسی ہی کہانی آشکار ہورہی ہے، ایم کیو ایم ایک ایسی سیاسی حقیقت ہے جسے آج تک پاکستان کی کوئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نظرانداز نہیں کر سکی ، ایم کیو ایم نے پچھلے 30سالوں سے وفاقی حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو کراچی میں مسلسل مصروف رکھا، گزشتہ 15سال سے سیاسی صورتحال ایسی رہی کہ حکومتیں ایم کیو ایم کی مخالفت مول لینے سے بچتی رہیں،پرویز مشرف اورپیپلز پارٹی کے گزشتہ دور اقتدار اور مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کے ابتدائی عرصے تک الطاف حسین حکومتوں پر اثرانداز ہوتے رہے لیکن عمران فاروق کا قتل وہ واقعہ تھا جہاں سے معاملات الطاف حسین کے ہاتھ سے نکلنا شروع ہوئے ، ذوالفقار مرزا کا قرآن پر قسمیں اٹھانا، منی لانڈرنگ کیسز ، را سے تعلقات کے الزامات ، بی بی سی کی رپورٹنگ ، کراچی میں رینجرز آپریشن ٗ پارٹی میں دھڑے بندی ٗدیرینہ ساتھیوں کا بھاگ جانا ،عشرت العباد سے اختلافات ، راؤ انور کے بیانات اور صولت مرزا اور دیگر گرفتار کارکنان کے انکشافات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ٗان پے در پے حادثات سے الطاف حسین کی سیاسی ساکھ کمزور ہوئی اور انہوں نے اعصابی دباؤ کا شکار ہو کر ایم کیو ایم کو تماشہ بنا دیا ، حکومتوں میں آنا جانا مضحکہ خیز صورتحال بن گئی ، رابطہ کمیٹی کو تحلیل اور بحال کرنا روزانہ کا مشغلہ بن گیا ،کروڑوں عوام کے سامنے ٹی وی پرناچ گاناہوتا رہا ٗ اسٹیبلشمنٹ الطاف حسین کو مسلسل کچوکے لگاتی رہی اور یہ سیخ پا ہو کر فو ج ،آئی ایس آئی ، رینجرز ، حاضر سروس جرنیلوں ، میڈیا مالکان ، اینکرز اور سیاسی لیڈروں کو براہ راست ٹی وی پر دھمکاتے رہے یہاں تک کہ لاہور ہائیکورٹ کوالطاف حسین کا میڈیا بلیک آؤٹ کرنا پڑ ا ،آہستہ آہستہ حکومتی سطح پر الطاف حسین سے رابطوں کا سلسلہ ختم ہوتا گیااور اسٹیبلشمنٹ نے مائنس الطاف فارمولے پر کام شروع کر دیا، جا نشینی کا سوال میڈیا کی زینت بننے لگا ،پارٹی میں کشمکش شروع ہوگئی، منی لانڈرنگ کیسز میں ممکنہ گرفتاری کے باوجود الطاف حسین نے کسی کو بھی اپنا جانشین مقرر نہ کیا اور تمام اختیارات ایک ایگزیکٹو باڈی کے حوالے کر دیئے ٗتمام لوگوں کی امیدوں پراس وقت پانی پھر گیا جب لندن میں عمران فاروق قتل کیس کا کچھ بنا اور نہ ہی منی لانڈرنگ کیسز میں الطاف حسین کی گرفتاری ہوسکی بالآخر الطاف حسین کی مسلسل گرتی ہوئی صحت نے اس عمل کوتیز کر دیا کہ ایم کیو ایم کی سیاسی قیادت کا تاج کس کے سر سجے گا؟ الطاف حسین اس وقت متعدد جسمانی عوارض کا شکارہیں، انہیں لاحق امراض انتہائی سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں اور وہ بیماریوں سے نجات کیلئے ادویات کی بڑی مقداراستعمال کرنے پر مجبور ہیں،بیماری کاباعث بننے والی چیزوں سے پرہیز کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ،کمزوری اور نقاہت کا یہ عالم ہے کہ ان کے لئے دو قدم چلنا محال اور باتھ روم تک پہنچنابھی مشکل ہو چکا ہے ، وہ الیکٹرانک وہیل چیئر پر منتقل ہو چکے ہیں اور اس وقت شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں، میڈیا بلیک آؤٹ کی وجہ سے وہ سیاسی منظر نامے سے عملاً کٹ چکے ہیں اور ان کی واپسی کے دور دور تک آثار نظر نہیں آ رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کے حوالے سے مائنس الطاف فارمولے کی گونج جو ایک عرصے سے سنائی دے رہی تھی وہ اب عملی صورت اختیار کرگئی ہے۔
مصطفی کمال کا ملک ریاض کی نوکری چھوڑ نا ، اچانک منظرعام پرآنا ، دفتر بنانا ٗسٹیٹ پروٹیکشن لینا ٗالطاف حسین پر الزامات عائد کرنا ٗبے نام پارٹی اور قومی جھنڈااستعمال کرنے کا اعلان کرنا ٗپاکستان کی سیاست میں ایک بھونچال سے کم نہیں ،ان کی تہلکہ خیز پریس کانفرنس ، ملک کے سیاسی منظرنامے میں کسی بڑی تبدیلی کی گونج ہے ، مصطفی کمال نے نہ صرف الطاف حسین سے عملی بغاوت کر دی ہے بلکہ مہاجر کمیونٹی کی نمائندگی کرنے کیلئے ایک نئی سیاسی جماعت کا اعلان بھی کردیاہے۔سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ اچانک ہوا یا کافی عرصے سے پلاننگ کی جا رہی تھی اور اس کے پلانرز کون تھے؟مصطفی کمال کی واپسی نے بھی بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے ، اول یہ کہ مصطفی کمال کے دل میں وطن ، مہاجروں اور ایم کیو ایم کے ورکرز کی محبت اچانک کیسے جاگ گئی؟ماضی میں اس قسم کی محبت کے ہاتھوں شاہ محمود قریشی ، ذوالفقار مرزا اور طاہر القادری کافی ذلیل ہوچکے ہیں ،سیاسی پارٹیوں کو راہ راست پر لانے کے چکر میں شاہ محمود قریشی ، ذوالفقار مرزا اور جاوید ہاشمی نے اپنی پارٹیوں کیخلاف علمِ بغاوت بلند کیا لیکن خاندان کے لوگ تک ان کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ گئے تومصطفی کمال کے پاس ایسی کونسی گیڈر سنگھی ہے جو انہیں کامیاب کروائے گی۔ دوم کیا صرف مصطفی کمال ہی جانشینی کے امیدوار ہیں ؟ ایم کیو ایم کے کچھ اور سیاسی رہنمابھی تیاری کر کے بیٹھے ہیں،کیا وہ مصطفی کمال کو پارٹی اتنی آسانی سے ہائی جیک کرنے دیں گے ؟تیسرا اور سب سے اہم سوال کہ الطاف حسین جیسے’’ بارعب اور دبدبے والے‘‘ سیاستدان جن سے پاکستان کی سیاسی حکومتیں ، سندھ پولیس اور میڈیا ہاؤسز ڈرتے ہوں انکی 40سال کی محنت سے بنائی ہوئی پارٹی اتنی آسانی سے چھینی جا سکتی ہے؟ ان تین سوالات کے جوابات آنے والے دنوں میں کراچی میں بڑی جنگ کا پیش خیمہ ہیں۔
جو بھی ہو مصطفی کمال کو سندھ میں بہت بڑی حمایت حاصل ہوتی نظر آ رہی ہے،ایم کیو ایم طوفان کی زد میں ہے ، پیپلز پارٹی جو پہلے ہی دباؤ کا شکار تھی رحمان ملک کے نام آنے پر مزید مشکلات کا شکار ہو گئی ہے، انیس قائم خانی مصطفی کمال کے ساتھ ہیں ، عمران فاروق گروپ اورحیدر آباد کی قائم خانی فیملی انیس قائم خانی کے پیچھے کھڑے ہیں ٗعشرت العباد اور رشید گوڈیل آن بورڈ ہیں ،ذوالفقار مرزا اور نبیل گبول ساتھ دینے کا اعلان کر چکے ہیں ، ایم کیو ایم کی ٹاپ لیڈر شپ میں سے کچھ لوگوں کی خاموشی اور منظر عام سے غائب ہونا معنی خیز ہے ،اگر اسٹیبلشمنٹ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کو بچا نے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ایم کیو ایم کے متعدد ایم این ایز اور سینیٹرز مصطفی کمال کو جوائن کر لیں گے اور تحریک انصاف کو سندھ میں ایک بہت بڑی حلیف جماعت ملتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
آنے والے دنوں میں پاکستانی عوام کو ایک دلچسپ فلم دیکھنے کو ملے گی جس میں ڈرامہ ،سسپنس ، تھرل ، ایکشن اور خدانخواستہ کشت و خون بھی ہو سکتا ہے ، اسکرپٹ رائٹر کو داد دینی چاہئیے جنہوں نے مسلسل5سال محنت کی ،پے در پے حملے کرکے الطاف حسین کو نفسیاتی دباؤ کا شکار کیا ، مسلسل کچوکے لگائے اور الطاف حسین اپنے زبان و بیان سے میڈیا بلیک آؤٹ کروا بیٹھے، رینجرز آپریشن کے ذریعے ایم کیو ایم کی دھاک عوام پر کم کی گئی اور الطاف حسین سے پہلے الطاف بھائی کے خوف کو مارا، یہی وجہ ہے کہ آج ایک شخص ایم کیو ایم کے گڑھ میں بیٹھ کر الطاف حسین کو چیلنج کر رہا ہے ۔
ایم کیو ایم کی سیاسی قیادت کا تاج کس کے سر سجے گا؟ الطاف حسین کی جانشینی کیلئے لڑی جانے والی جنگ کی اندرونی کہانی
6
مارچ 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں