تہران(نیوز ڈیسک)ایک سرکردہ ایرانی عالم نے اصلاح پسندوں پر الزام لگایا ہے کہ انھوں نے’مجلسِ رہبری‘ سے سخت گیر موقف کے حامل رہنماؤں کو باہر رکھنے کے لیے مغربی ممالک کے ساتھ ساز باز کی ہے۔ایران میں جمعے کو لاکھوں افراد نے ارکانِ پارلیمان اور مجلس رہبری کے نمائندوں کے چناؤ کے لیے ووٹ ڈالے تھے۔انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق زیادہ تر ووٹ سابق صدر علی اکبر رفسنجانی اور ایران کے اصلاح پسند صدر حسن روحانی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ملے ہیں۔اصلاح پسند اور اعتدال پسند امیدواروں نے دارالحکومت تہران سے تمام نشستیں حاصل کی ہیں۔اس صورتحال پر ایرانی رہنما اور عالم صادق لاریجانی کا کہنا ہے کہ پولنگ کے دوران اصلاح پسندوں نے ’امریکہ اور انگریزی میڈیا کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔‘ایک بیان میں انھوں نے سوال اٹھایا ہے کہ ’آیا مجلس رہبری سے ایسے رہنماؤں کو باہر کرنے کے لیے بیرونی طاقتوں سے تعاون ملک کے مفاد میں ہے؟‘ایران میں حالیہ الیکشن کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ مجلسِ رہبری کے 88 ارکان ملک کے موجودہ رہبرِ اعلیٰ 76 سالہ آیت اللہ علی خامنہ ای کے جانشین کا انتخاب بھی کر سکتے ہیں۔خیال رہے کہ گذشتہ سال جوہری معاہدے کے نتیجے میں بین الاقوامی پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد سے یہ ایران میں پہلے انتخابات ہیں۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ تہران سے آنے والے نتائج انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ دارالحکومت سے آنے والے قانون ساز پارلیمان کا رخ طے کرتے ہیں۔لیکن دارالحکومت کے باہر مخلوط نتائج آئے ہیں جس میں نہ تو اصلاح پسندوں اور نہ ہی سخت گیروں کو اتنے ووٹ ملے ہیں کہ وہ پارلیمان پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکیں۔حسن روحانی نے سنیچر کو کہا تھا کہ یہ انتخابات ایران کو بین الاقوامی تنہائی سے باہر لانے کی ان کی کوششوں پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق انھوں نے کہا: ’مقابلہ ختم ہو چکا ہے۔ اب ایران کی اندرونی صلاحیت اور بین الاقوامی مواقع کی بنیاد پر ایران کی معاشی ترقی کا ایک نیا باب کھولنے کا وقت ہے۔‘جوہری توانائی کے متعلق معاہدے کی مخالفت کے علاوہ انھیں گھریلواصلاحات کے معاملے میں بھی مخالفت کا سامنا رہا۔دوسری جانب ایران کی کنزرویٹو نیوز ایجنسی تسنیم کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ ’60 فی صد ووٹنگ دنیا کے سامنے مذہبی جمہوریت کا روشن چہرہ ہے۔‘تاہم انھوں نے ’بیرونی مداخلت کے خلاف ہوشیار رہنے کے لیے کہا ہے۔