نیویارک(نیوز ڈیسک)زلزلے کے بعد تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے کے نیچے سے زندہ بچ جانے والے افراد کی تلاش ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے کیونکہ ملبے کے نیچے جانے والے آلات اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ وہ نیچے جا ہی نہیں پاتے لیکن اب اس مشکل کا حل نکال لیا گیا ہے اور امریکی سائنسدانوں نے ایسا روبوٹ تیار کرلیا ہے جس کی شکل بالکل لال بیگ جیسی ہے اور اسے زلزلے کی صورت میں امدادی کارروائیوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔سائنس دانوں کے مطابق یہ لال بیگ یعنی ننھا روبوٹ کیڑے کی طرح دراڑوں میں سے سکڑ کے گزرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اگر اس پر کیمرا لگا دیا جائے تو یہ منہدم ہونے والی عمارتوں میں حفاظتی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سائنسی جریدے ’’پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق روبوٹ کے پروٹوٹائپ (ابتدائی بڑے ماڈل) کی جسامت انسانی ہتھیلی جتنی ہے۔تحقیق کے سربراہ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدان کا کہنا ہے کہ لال بیگ کے بارے میں سب سے متاثر کن بات یہ ہے کہ وہ ایک چوتھائی انچ خالی جگہ سے یوں گزر جاتے ہیں جیسے وہ جگہ ڈیڑھ انچ چوڑی ہواور ایسا وہ اپنی ٹانگیں باہر کی سمت مکمل طور پر پھیلا کر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب یہ کیڑے آزادانہ گھوم رہے ہوتے ہیں تو ان کا قد نصف انچ کے قریب ہوتا ہے تاہم ضرورت پڑنے پر یہ اپنا جسم اتنا چپٹا کرسکتے ہیں کہ وہ ایک کے اوپر ایک رکھے ہوئے 2 سکّوں کی اونچائی کے برابر ہو جاتا ہے۔لال بیگ روبوٹ کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لال بیگ نہ صرف شگافوں اور دراڑوں سے گزر سکتے ہیں بلکہ اپنے وزن سے 900 گنا زیادہ بوجھ بغیر زخمی ہوئے اٹھا سکتے ہیں۔ اس روبوٹ نما آلے کا نام کریم (کنٹرولڈ روبوٹ ود آرٹیکولیٹیڈ میکینزم) رکھا گیا ہے اور یہ اپنے قد سے محض نصف اونچی جگہ سے گزر سکتا ہے جب کہ اس کی کمر پر اصل لال بیگ سے مشابہ پلاسٹک کا بنا ہوا سخت خول چڑھا ہوا ہے۔دیگر ماہرین کا کہنا ہیکہ زلزلہ آنے کی صورت میں امدادی کارکنوں کے لیے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ کیا امدادی کارروائی کےآغاز کے لیے ملبہ محفوظ ہے یا نہیں، جب کہ اس سے بھی بڑی مشکل یہ سامنے آتی ہے کہ موجودہ روبوٹوں کی رسائی ملبے کے اندر تک نہیں ہوتی ہے لیکن اس مشکل کو اس روبوٹ لال بیگ نے حل کردیا ہے اور ان لال بیگ کو بڑی تعداد میں عمارت کے ملبے کی دراڑوں، سوراخوں یا نالیوں میں سے اندر داخل کیا جا سکتا ہے جو نیچے دبے ہوئے زندہ افراد کو نہ صرف ڈھونڈھ سکتا ہے بلکہ امدادی کارکنوں کے راستہ بھی تلاش کرسکتا ہے۔