کراچی (نیوز ڈیسک) کالعدم لیاری امن کمیٹی اور گینگ وار کے سرغنہ عذیر جان بلوچ کی گرفتاری 397دن بعد دوسری بار پاکستانی میڈیا پر غیرمعمولی خبر بنی ہے جو سال 2016کے دوران کئی اوربریکنگ نیوز کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ جنگ رپورٹر افضل ندیم ڈوگرکے مطابقہفتے کو علی الصبح بلوچستان سے کراچی کے داخلی راستے پر پاکستان رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ظاہر کئے گئے عزیر بلوچ کو 29 دسمبر 2014ءکو مسقط سے سڑک کے راستے دبئی میں داخل ہوتے وقت سیکورٹی حکام نے گرفتارکیا تھا۔ ذرائع کے مطابق عذیر بلوچ کو 20 اپریل کو پاکستانی انٹر پول کے حوالے کیا گیا جو اسے لے کر اسلام آباد پہنچی تھی اور اسے حساس اداروں کے حوالے کردیا تھا۔ وہاں سے اسے پشاور منتقل کیا گیا جہاں 6 ماہ تک تفتیشی مرکز میں قیام پذیر رہا، اس عرصے میں ملزم سے کی گئی تفتیش کے نتیجے میں ہی کراچی میں غیرمعمولی نوعیت کا آپریشن شروع کیا گیا جو کے بعد اہم نوعیت کے سیاسی لیڈر پاکستان سے فرار ہوگئے، عذیر بلوچ کی کسی ممکنہ وقت پر گرفتاری متوقع تھی مگر یہ گرفتاری کیسے ظاہر کی جائے اس کے لئے گذشتہ سال ہی ایک افواہ پاکستانی میڈیا کی خبر بنوائی گئی کہ عذیر بلوچ کو دبئی میں رہا کر دیا گیا۔پاکستان کے لئے یہ بڑی خبر تھی جو اس کے بعد کے کئی روز تک موضوع بحث اور فالواپ ہوتی رہی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی پاکستان حوالگی اور دبئی میں تفتیش کے دوران اہم نوعیت کے انکشافات کی اطلاعات پر سندھ کے کئی سیاستدانوں کو سخت پریشانی لاحق ہو گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ عذیر بلوچ کی گرفتاری کے بعد اسے کسی بھی طرح پاکستان لاکرٹھکانے لگانے میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے انتہائی دلچسپی ظاہر کی۔ ایک خفیہ منصوبہ بندی کے تحت کراچی پولیس کے بعض افسران کو عذیر بلوچ کو کراچی واپس لانے کے کام پر لگا دیا گیا۔ سندھ پولیس یا رینجرز کا یہ دائرہ کار نہیں تھا یہ کام سو فیصد وفاقی محکمہ داخلہ یا انٹر پول کے کرنے کا تھا۔ یہ اہم حقیقت جانتے ہوئے بھی حکومت نے 5 فروری 2015کو اپنے تین پولیس افسران دبئی روانہ کردیئے۔ جس کی دیکھا دیکھی پاکستان رینجرز نے بھی اپنے ایک افسر کو دبئی بھیجا۔ ان افسران کو دبئی جانے کا سرکاری ویزہ نہیں ملا تھا بلکہ وہ وزٹ ویزے پر دبئی پہنچے تھے۔ ٹیم کے ارکان نے اس سلسلے میں ایک ماہ سے زائد وقت دبئی میں گزارا اس دوران ان کے ویزوں میں توسیع بھی کرائی گئی۔