اسلام آباد (نیو ز ڈیسک )ڈی ایچ اے سے متعلق مقدمات میں جتنے بھی افراد راولپنڈی اور لاہورسے نیب نے گرفتار کیے ہیں ان سب نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے اس معاملے سے کسی بھی قسم کے تعلق سے انکار کیا ہے،ان میں وہ معاملہ بھی شامل ہے جس میں اشفاق پرویز کیانی کا چھوٹا بھائی کامران کیانی بھی شامل ہے۔ باخبر نیب ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ڈی ایچ اے عہدیدارجوفی الوقت بیورو آف انویسٹی گیشن کی حراست میں ہیں انہوں نے تصدیق کی ہے کہ جنرل کیانی نے کبھی بھی ڈی ایچ اے کی مینجمنٹ پر کسی نجی پارٹی کو فائدہ دینے کےلیے کبھی کوئی اثرورسوخ استعمال نہیں کیااور اس میں وہ معاملہ بھی شامل ہے جس میں ان کابھائی کامران کیانی ملوث ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مرحلے کی تحقیقات تک یہ ثابت ہوتا ہے کہ جنرل کیانی بے قصور ہیں اور سابق آرمی چیف کو صاف چٹ دے دی گئی ہے۔انہیں ڈی ایچ اے کے مشتبہ معاملات میں ان کے بھائیوں کی وجہ سے گھسیٹا جارہا تھا۔ کامراان کیانی سے متعلق نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ اس چھوٹے کیانی کے ایک پارٹنر کو تو نیب نے حراست میں لیا ہے لیکن کامران کیانی کی گرفتاری کےلیے وارنٹ ایشو کرنا ابھی باقی ہے۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ” فی الحال ہمیں اس کی ضرورت نہیں لیکن آے والے دنوں میں اسکا فیصلہ کیا جاسکتا ہے“چند ماہ قبل کامران کیانی کو ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا کہ وہ نیب کی تحقیقات میں تعاون کریں لیکن بیرون ملک ہونے کی وجہ سے وہ نیب راولپنڈی کے روبرو پیش نہیں ہوئےجسے وہ ڈی ایچ اے فارمزہاﺅس اسلام آباد منصوبے میں اپنے کردار کی وجہ سے مطلوب تھے۔جنگ رپورٹرانصار عباسی کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ ڈی ایچ اے اسلام آباد نے ابتدائی طور پر فارمز ہاﺅس اسکیم لانچ کرنے کا فیصلہ کیا تھاجس کےلیے اس نے ایڈن کمپنی سے سودا کیا تھااور اسی نے اس اسکیم کےلیے زمین حاصل کرنا تھی لیکن چونکہ مطلوبہ مقدار میں اراضی حاصل نہ ہوسکی تواس اسکیم کو خیر باد کہہ دیا گیا تھا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ایڈن کمپنی نے اراضی کے حصو ل کےلیے ایلیزیم ہولڈنگ پاکستان لمیٹڈ سے رابطہ کیا تھا۔ ایک فارمولا طے کرلیاگیاجس کے تحت 32کنال اراضی کے مالک کو فارم ہاﺅس ملتا تھا۔ ایسے تمام فارم مالکان کو الاٹمنٹ کے کاغذات ملنا تھے۔ یہ کہاجاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ ڈی ایچ اے فارم ہاﺅس اسکیم سے الگ ہوگیا تھا 180افراد کو مالکان اراضی ہونے کی اسناد جاری کی گئیں جو کہ کبھی حاصل یا خریدی ہی نہیں گئی تھی۔ اس سے ڈی ایچ اےپر بھاری رقوم واجب الادا ہوگئیں باوجود اس کے کہ وہ اس پروجیکٹ سے الگ ہوچکا تھا۔مجموعی طور پر 180دستاویزات جاری کی گئی تھیں جن میں سے120مالکان سے دستاویزات نکلوا لی گئی ہیں لیکن 20مالکان اراضی ایسے ہیں جو اب اپنی زمین کی ملکیت کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس پروجیکٹ میں ڈی ایچ اے کا دعویٰ ہے کہ اسے 50کروڑ کا نقصان ہوا جبکہ ایلیزیم کا دعویٰ ہے کہ ڈی ایچ اے کو تقریباً 6ہزار ایکڑ اراضی حوالے کی گئی جس کی قیمت12ارب روپے بنتی ہے۔ نیب کامران کیانی اور ایلیزیم کے تعلق کو جوڑ کر بتاتا ہے کہ کامران اس کمپنی کے مالکان میں سے ایک ہیں، کامران کیانی کے بڑےبھائی بریگیڈیئر امجد کیانی نے البتہ اپنے بھائی کی کسی غلط کاری کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ انہوں نے ایلیزیم 2007میں چھوڑ دی تھی اور یہ اس سودے سے بہت پہلے کی بات ہے جب ڈی ایچ اے فارم ہاﺅس پراجیکٹ بن رہا تھا۔ نیب ے ذرائع البتہ اب بھی اصرار کرتے ہیں کہ کامران کیانی کا اس میں کردار تھا۔ یہ کہاجاتا ہے کہ کیانی نے سودے بازی کےلیے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا۔ کامران کیانی فی الوقت پاکستان واپس آنے سے اجتناب برت رہا ہے اور تحقیقات میں شمولیت سے گریز کر رہا ہے باوجود اس کے کہ اس کے قابل عزت بھائی جنرل (ر) کیانی کا نام میڈیا میں بدنام ہورہا ہے اور اس ڈی ایچ اے اسکینڈل میں شامل دیگر افراد بھی ان کا نام لے رہے ہیں۔