اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان نے ایران کو آزاد تجارتی معاہدے کی پیشکش کر دی، پاکستان زرعی برآمدات پر ایران کی طرف سے ٹیرف میں استحکام چاہتا ہے، ایران کے ساتھ 3 بارڈر پوسٹوں پر انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے ساتھ انھیں جدید سہولتوں سے آراستہ اور تاجروں کی سہولت کے لیے عالمی معیار کا سسٹم نافذ کیا جائے گا۔منگل کو وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر نے پاکستان میں ایران کے نو متعین سفیر مہدی ہنر دوست سے ملاقات کی جس میں انھوں نے عالمی پابندیاں اٹھنے کے بعد ایران کو آزاد تجارتی معاہدے کی پیشکش کر دی، ایران کی رضامندی کی صورت میں پاکستان چند ہفتوں میں تجارتی معاہدے کے بنیادی اصولوں پر مبنی خاکہ ایرانی حکام کو بھجوا سکتا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ پابندیوں کے خاتمے کے بعد پاکستان اور ایران کے درمیان موجود ترجیحی تجارتی معاہدے کو مزید وسعت دے کر آزاد تجارتی معاہدے میں تبدیل کرنے کا یہ موزوں ترین وقت ہے، دونوں ممالک کے مابین بینکنگ روابط آئندہ چند ہفتوں میں بحال ہو جائیں گے، عالمی پابندیوں کے پیش نظر ایرانی کمپنیوں سے لین دین کے لیے بینکوں کی معذوری ظاہر کی جس کی وجہ سے پاک ایران تجارت میں کمی آئی، پابندیوں کے خاتمے کے بعد پاکستان کی تجارت میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔انھوں نے کہا کہ پاکستان زرعی برآمدات پر ایران کی طرف سے ٹیرف میں استحکام چاہتا ہے تاکہ پاکستانی برآمد کنندگان طویل منصوبہ بندی کر سکیں، پاکستان زرعی مصنوعات کے لیے صفائی ستھرائی کے معیارات کا بھی باہمی رضامندی سے تعین کرنے پر تیار ہے، اس سے پاکستانی پھلوں، سبزیوں اور دوسری زرعی اجناس خصوصاً چاول کے برآمدکنندگان مستفید ہو سکیں گے۔وزیرتجارت نے کہا کہ پاکستان ایران کے ساتھ 3بارڈر پوسٹوں پر انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے ساتھ انھیں جدید سہولتوں سے مزین کرے گا اور وہاں تاجروں کی سہولت کے لیے عالمی معیار کا سسٹم نافذ کرے گا، تینوں پوسٹوں کو سڑک کے ذریعے آپس میں ملانے کے منصوبے پر بھی کام ہو رہا ہے، اس سڑک کو بعدازاں ملک کے شمالی حصے کی طرف جانے والی سڑکوں سے منسلک کر دیا جائے گا، ایران کے ساتھ بارڈر مارکیٹ کا قیام مقامی لوگوں کو تجارت کی بہترین سہولت فراہم کرے گا۔ایرانی سفیر نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان اور ایران کے مابین تاریخی تجارتی روابط ہیں جو نئے حالات کے تناظر میں مزید مستحکم ہوں گے، ایران سے پابندیوں کے خاتمے کے بعد پوری دنیا خصوصاً ہمسایہ ممالک کو فائدہ ہو گا، ایرانی گیس اور بجلی پاکستانی معیشت کے استحکام کے لیے نیا موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔۔