قندھار(نیوز ڈیسک) افغان طالبان نے موبائل فون کمپنیوں اور صنعتوں سے ایک نئے پروٹیکشن ٹیکس کا مطالبہ کردیا ہے۔غیر ملکی میڈیا نے عسکری ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جنگجو تنظیم نے جنگ زدہ ملک میں غیر معمولی طور پر کامیاب کاروبار کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا ہے۔گذشتہ ماہ ہونے والی ایک خفیہ میٹنگ کے دوران طالبان کی مرکزی قیادت نے 4 سیلولر کمپنیوں کے نمائندوں سے اْن کی تنصیبات اور ملازمین کو نشانہ نہ بنانے کے بدلے میں مذکورہ ٹیکس کا مطالبہ کیامیٹنگ میں شریک 2 ٹیلی کام کمپنیوں کے عہدیداران اور ایک انڈسٹری ایگزیکٹو کے مطابق یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا کہ جب افغان حکومت نے گذشتہ برس اکتوبر میں ٹیلی کام آپریٹرز پر 10 فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا تھا۔میٹنگ میں شریک ہونے والے ایک عہدیدار نے بتایا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ ہم انھیں بھی اتنی ہی رقم ادا کریں جتنی ہم حکومت کو دیتے ہیں عہدیدار کے مطابق ہم نے انھیں بتایا کہ اس سے ہمارا کاروبار تباہ ہوجائیگا لیکن ان کا کہنا تھا کہ صرف یہی ایک واحد صورت ہے جس سے آپ کے ملازمین کو نقصان نہ پہنچائے جانے اور تنصیبات کو نہ جلائے جانے کی ضمانت دی جاسکتی ہے طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے باقاعدہ ردعمل کا انتظار کر رہے ہیں۔مذکورہ طالبان ذرائع کے مطابق ہم نے انھیں (ٹیلی کام کمپنیوں کے نمائندوں کو) بتایا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم افغانستان میں آپ کے ٹرانسمیشن ٹاورز کی حفاظت کریں تو آپ پر ٹیکس لگانا ہمارا حق ہے اور آپ کو یہ ادا کرنا پڑیگادوسری جانب ابو ظہبی کی اتسالات کمپنی، جنوبی افریقا کی ایم ٹی این اور افغانستان کی روشن اور افغان وائرلیس کمیونیکیشن کمپنی، جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کے نمائندے مذکورہ میٹنگ میں موجود تھے، نے رابطہ کرنے پر اس بارے میں کوئی بیان دینے سے معذرت کر تاہم ان میں سے ایک کمپنی کے عہدیدار نے بے بسی اور الجھن کے ساتھ میٹنگ اور ٹیکس مطالبے کی تصدیق کی۔کابل کی مذکورہ ٹیلی کام کمپنی کے نمائندے نے بتایا کہ طالبان کو 10 فیصد ٹیکس؟ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنے منافع کی معلومات بھی ایک عسکریت پسند تنظیم کے ساتھ شیئر کرنی پڑیں گی یہ ممکن نہیں ہے اور ہم نے انھیں انکار کر دیا ہے تاہم میٹنگ میں موجود ایک ٹیلی کام کمپنی کے نمائندے نے کہا کہ طالبان سے فرار ممکن نہیں ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ کمپنیاں ہر ممکن طور پر مستقبل میں ہونے والے مذاکرات میں عسکریت پسندوں سے کچھ رعایت حاصل کرلیں گی.مذکورہ عہدیدار کے مطابق ہم اور کیا کرسکتے ہیں؟ ہماری تمام سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر ان کے رحم و کرم پر ہے ٗ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ اس حوالے سے ان کی کمپنی کا باقاعدہ ردعمل کیا ہوگا.دوسری جانب افغانستان کی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی نے رابطہ کرنے پر کوئی رائے دینے سے معذرت کرلی.واضح رہے کہ ماضی میں بھی طالبان کی جانب سے سیلولر کمپنیوں سے مختلف مطالبات کیے جاتے رہے ہیں خاص کر رات میں سگنلز بند کرنے کا مطالبہ تاکہ عسرکریت پسندوں کا سراغ نہ لگایا جاسکے ہلمند ٹیلی کمیونیکشنز کے ڈائریکٹر عمیداللہ ظہیر نے بتایا کہ حکومتی آپریٹر سلام کے علاوہ تمام نجی کمپنیوں نے اپنے سگنلز بند کردیئے تھے۔ان کے مطابق نجی آپریٹرز مجھ سے کہتے، ہم روزانہ کی بنیاد پر نقصان اٹھا رہے ہیں کچھ کریں۔ظہیر کا کہنا تھاکہ ہم کیا کرسکتے ہیں ہم بے بس ہیں گذشتہ ماہ طالبان نے قندوز کے لوگوں کو جنوبی افریقا کی ایم ٹی این کمپنی کا بائیکاٹ کرنے کو کہا۔قندوز میں ایک عسکری کمانڈر نے بتایاکہ طالبان کی جانب سے صوبے کی تمام ٹیلی کام کمپنیز کو شام 5 سے صبح 5 بجے کے دوران اپنی سروس بند کرنے کا کہا گیا لیکن ایم ٹی این نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیایہی وجہ ہے کہ اس کمپنی پر پابندی لگا دی گئی۔