اسلا م آباد (نیو ز ڈیسک) میڈیا کے کچھ حلقوںمیں دعویٰ کیاجارہا ہے کہ وزیر اعظم نے آرمی چیف جنر ل راحیل شریف کو توسیع دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔یہ کہا جارہا ہے کہ آرمی چیف نے تاحال یہ پیشکش تسلیم نہیں کی ”توسیع کی پیشکش میز پر موجود ہے“ اس حوالے سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس سلسلے میں کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔اگر بات سچ ہے تو وزیراعظم اس سے بڑھ کر پاکستان آرمی کے ادارے کی مضرت رسانی نہیں کر سکتے تھے۔ ایک ٹی وی شو میں ایک ریٹائرڈ جرنیل کا اصرار رھا کہ جنرل راحیل یہ پیشکش قبول نہیں کریں گے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی کی توسیعات سے ادارے کو بری طرح نقصان پہنچا اور ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ جنرل راحیل اس توسیع کو قبول کرنے پر قائل ہیں۔ اگر ایسا ہے تو جنرل راحیل نہ تو اپنے حق میں اچھا کریں گے اور نہ ہی اپنے ادارے کے حق میں بہتری کریں گے جسے انہوں نے بڑے وقار اور عزت کے ساتھ لے کے چل رہے ہیں۔2010میں جب آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو توسیع کی پیشکش کی گئی تو اس موقع پر اس نمائندے کو توسیع کے معاملے پر نوازشریف سے بات کرنے کا موقع ملا تھا۔اس وقت نواز شریف نے فوج میں توسیع کے حوالے سے اپنی بیزار کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل کیانی کےلیے اپنی پسندیدگی کے باوجود ان کاخیال ہے کہ حکومت کو کیانی کونہ تو توسیع دینا چاہئے اور نہ ہی جنرل کیانی کو قبول کرنی چاہئے۔آج چار برس گزرنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے مبینہ طور پر وہی کچھ کر رہے ہیں جسے انہوں نے ماضی میں ناپسند کیا تھا۔ تو اب اصولوں پر سمجھوتہ کیوں کیاجارہا ہے؟ وزیر اعظم وہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں جو نہ تو فوج کے مفاد میں ہے اور نہ ہی جنرل راحیل کے مفاد میں ہے۔عمومی طور پر یہ تسلیم کیاجاتا ہے کہ جنرل راحیل شریف جیسا پیشہ ور سپاہی اپنی سروس میں توسیع قبول نہیںکرے گا۔ ان کی موجودہ ریپوٹیشن کو دیکھتے ہوئے بھی یہ تسلیم کرنا مشکل ہوگا کہ وہ اپنی آئینی مدت سے آگے بڑھ کر اپنے ورثے کو زک پہنچائیں گے جسے وہ آرمی چیف کی حیثیت سے اپنی زبردست کارکردگی کے بعد دوسروں کےلیے چھوڑ سکتے تھے۔ان کے دو پیشرو جنرل پرویز مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی نے توسیع قبول کی اور آرمی چیف کے عہدے پر مجموعی طور پر16برس تک متمکن رہے۔ مشرف تقریباً دس برس تک آرمی چیف رہے جبکہ جنرل کیانی کو پیپلزپارٹی کے دور میں تین سالہ توسیع ملی۔اگرچہ مشرف اور کیانی میں کوئی موازنہ نہیں کیاجا سکتا کیونکہ مشرف تو مارشل لاایڈمنسٹریٹر تھا جس نے دو مرتبہ آئین معطل کیا۔ ان دونوں توسیوں کے نتیجے میں آرمی چیف کا عہدہ تو متنازع نہیں ہوا لیکن اس سے فوج کی بطور ادارہ حیثیت بری طرح مجروح ہوئی۔جنگ کے سینئر صحافی انصار عباسی اپنے تجزیہ میں لکھتے ہیںکہ اگر جنرل راحیل حکومتی پیشکش قبول کرہی لیتے ہیں تو وہ مسلسل تیسرے آرمی چیف ہوں گے جو اپنی مدت ملازمت میں توسیع قبول کریں گے۔اس سے ایک غیر صحتمند اور خطرناک روایت آگے بڑھے گی اور مستقبل کی حکومتوں کےلیے کسی آرمی چیف جو توسیع نہ دینا ممکن نہیں رہے گااور اس صورت میں دیگر اعلیٰ فوجی جرنیل بھی ملازمتوں میں توسیع کی ترغیب پائیں گے۔ہمارے جیسی پیشہ ور افواج میں اس قسم کی توسیع کا خیر مقدم کیاجاتا ہے۔ ایک فوجی کےلیے تین سال کی مدت کےلیے آرمی چیف بننا ایک خوا ب سے کم نہیں ہے۔ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا مطلب یہ ہے کہ دیگر کو ترقی کے مواقع نہیں ملیں گے۔ حکومت کے پاس یہ سب کچھ کرنے کی اپنی وجوہات ہوسکتی لیں لیکن اس قسم کے فیصلوں سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سیاسیائے جانے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے،توسیع اور سروس میں دوبارہ لیاجانا خواہ وہ فوجی شعبے میں ہو یا سول میں اداروں کےلیے اچھا نہیں ہوتا جب تک کہ و ہ کسی خاص شخص کی مخصوص مہارتوں کے پیش نظر بالکل ناگزیر نہ ہوجائے۔مدت ملازمت میں توسیع کی جازت کی شق خواہ وہ سول بیوروکریسی کےلیے ہی کیوں نہ ہو اس کا استعمال غیر معمولی اور استثنائی حالت میں ہوتا ہے اور صرف ایسی صورتحال جس میں ایک شخص کسی خاص کام کےلیے ناگزیر ہوجائے لیکن ایسا نہیں ہوپایا جس کے نتیجے میں سول بیوروکریسی میں تنزلی ہوئی۔یہ کچھ فوج کے ساتھ کرنے سے فوج کے سیاسیائے جانے کا خدشہ پیدا ہوگا اور اس سے اس کی پیشہ وارانہ صلاحیت پر سمجھوتہ ہوگا۔ ضرورت اس امرک ی ہے کہ پاک فوج کو پاکستان کی سول سروس بننے سے روکا جائے۔جنرل راحیل بلاشبہ غیر معمولی نتائج دیئے ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ پاک فوج کے اجتماعی کام کا نتیجہ ہے۔ کسی بھی فرد کو توسیع دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ادارے پر ترجیح دی جارہی ہے۔نوازشریف حکومت کو چاہئے کہ وہ آرمی چیف کے کام کی تعریف کرے تاہم انہیں توسیع کی ترغیب دینا اور یہ تاثر دینا کہ وہ ناگزیر ہیں خطرناک ہوسکتا ہے اور یہ ادارے کے حق میں نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنے اداروں کو کمزور کرنے کی بجائے مستحکم کرنا چاہئے۔