لندن /اسلام آباد (نیوز ڈیسک)برطانوی نشرےاتی ادارے نے دعویٰ کےا ہے کہ اسلام آبادمےں جمعہ کے روز دو گھنٹے موبائل فون سروس کی بندش کا مقصد لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کو جمعہ کے اجتماع سے ٹےلی فونک خطاب کرنے سے روکنا ہے۔برطانوی نشرےاتی ادارے کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں جمعہ کے روز موبائل سروس بند کردی گئی تاہم اس پیش رفت کے بارے میں نہ تو وزارت داخلہ اور نہ ہی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے عوام کو آگاہ کیا تھا۔اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز جمعے کا خطبہ مسجد میں جا کر دینا چاہتے ہیں لیکن حکومت نے ا±ن پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر رکھی ہے۔لال مسجد کے سابق خطیب نے ملک میں اسلامی نفاذ کے انعقاد کے لیے حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دے رکھی تھی جو ختم ہو گئی ہے۔اسلام آباد کی انتظامیہ کے اہلکار کے مطابق مولانا عبدالعزیز انتظامیہ کی طرف سے لگائی گئی پابندی کے باوجود ٹیلی فون کے ذریعے جمعے کا خطبہ دینا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے جمعے کی نماز سے لے کر دو گھنٹے تک وفاقی دارالحکومت میں موبائل سروس بند کر دی گئی۔اہلکار کے مطابق مقامی پولیس مولانا عبدالعزیز کو مکان سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہی۔اہلکار کے مطابق گذشتہ دو ہفتوں سے اس پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے جبکہ کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بھاری نفری لال مسجد کے باہر تعینات کر دی گئی ہے۔آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی پہلی برسی کے موقعے پر سول سوسائٹی کے کچھ افراد نے مولانا عبدالعزیز کے خلاف مظاہرہ کیا تھا جن کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ لال مسجد کے سابق خطیب نے آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والوں کی مذمت نہیں کی تھی۔لال مسجد کے سابق خطیب نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔ تاہم اس کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سےمتعلق سپریم کورٹ نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔