اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان میں پشاور سکول حملے کے بعد اس سال دہشتگردی کے واقعات میں کمی دیکھی گئی ہے لیکن سرکاری اعداوشمار کے مطابق 1100 سے زائد واقعات ریکارڈ کئے گئے۔ ان واقعات میں تقریباً 650 مبینہ شدت پسند ہلاک ہوئے جبکہ 710 گرفتار ہوئے۔ یہ اعدادوشمار وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سینٹ کے اجلاس میں سینٹر سحر کامران کی جانب سے کیے جانے والے ایک سوال کے جواب میں بتائے۔ اگرچہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جاری قومی ایکشن پلان کے تحت حکومت ہزاروں مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا دعوی کرتی رہی ہے لیکن وزیر داخلہ کے بیان کے مطابق اس سال 710 دہشت گرد گرفتار کئے گئے۔ سب سے بڑی تعداد خیبر پختونخوا سے یعنی 301 رہی۔ اس سال ملک میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی تفصیل بتاتے ہونے ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے ساڑھے چھ سو سے زائد واقعات رونما ہوئے۔ دوسرے نمبر پر شورش سے متاثرہ صوبہ بلوچستان رہا جہاں تقریباً 200 واقعات رونما ہوئے جن میں 100 کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ حکام کا کہنا ہے کہ 2015 میں 193 واقعات کے ساتھ خیبر پختونخوا تیسرے نمبر پر رہا جہاں 73 شدت پسندوں کی جانیں گئیں۔ پنجاب میں 55 جبکہ سندھ میں 36 شدت پسند ہلاک ہوئے۔ قبائلی علاقے سرفہرست رہے جہاں 373 مبینہ شدت پسند مارے گئے۔ لیکن دہشت گردی کے واقعات پر نظر رکھنے والی آن لائن ویب سائٹ ساوتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے مطابق رواں برس پاکستان میں مجموعی طور پر 2300 سے زائد شدت پسند مارے گئے ہیں۔ حکومت نے عام شہریوں کی ان واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد تو نہیں بتائی لیکن اس ویب سائٹ کے مطابق 900 عام شہری بھی اس سال ہلاک ہوئے ہیں۔ سال 2014 کے مقابلے میں عام شہریوں اور شدت پسندوں دونوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں کمی دیکھی جاسکتی ہے۔ سال 2014 میں تقریبا 1800عام شہری اور 3200 شدت پسند مارے گئے تھے۔ آزاد کشمیر مکمل طور پر پرامن رہا اور وہاں کسی دہشت گردی کا واقعہ ریکارڈ نہیں کیا گیا جبکہ پرامن سمجھے جانے والے گلگت بلتستان میں بھی چھ واقعات میں صرف ایک شخص جان سے گیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے ایوان بالا کو بتایا کہ افغانستان کے ساتھ سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کا دائر اختیار طورخم تک بڑھانے، 450 کلومیٹر طویل سرحد پر گاڑیوں اور انسانی آمد و رفت روکنے کے لیے روکاوٹیں بنائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ سرحد پر سکیورٹی فورسز کی گشت بھی بڑھائی گئی ہے۔