ماسکو(نیوزڈیسک)روس کے صدر ولادی میر پیوٹین نے کہا ہے کہ روسی جہاز گرانا ترکی کی جانب سے ’جارحیت‘ تھی لیکن روس ان ملکوں میں سے نہیں ہے جو بھاگ جائے،ترکی امریکیوں کے تلوے چاٹتا ہے،روس میں سیاسی سال کے اختتام پر ٹی وی چینل پر نشر کی گئی ایک پریس کانفرنس سے میں روسی صدر نے کہا کہ جہاز گرانا ترکی کی ’جارحیت‘ تھی لیکن روس ان ملکوں میں سے نہیں ہے جو بھاگ جائے۔روسی صدر نے ترکی کی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ترکی نے امریکیوں کے تلوے چاٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ترکی میں آہستہ آہستہ اسلامائزیشن آ رہی ہے اور اتاترک اپنی قبر میں لوٹ رہے ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ ترکی صرف فون اٹھاتا اور روس سے شام میں موجود ترک باغیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے بارے میں بات کر لیتا۔روسی صدر نے کہا کہ روسی جہاز گرا کر ترکی اپنے ہی مفادات کے خلاف گیا ہے اور ترکی کی موجودہ قیادت کے ہوتے ہوئے دونوں ممالک میں سفارتی کشیدگی میں کمی نہیں ہو سکتی۔انہوں نے کہا کہ روس ترکی کے مفادات کا خیال رکھنے کے لیے تیار تھا۔ ’جب انقرہ روسی جہاز گرانے کی توجیہ دیے بغیر نیٹو کی جانب مدد کے لیے دیکھنے لگا تو میں بالکل ہکا بکا رہ گیا۔انھوں نے کہا کہ روس کی جانب سے شام میں ایئر ڈیفنس میزائل نصب کرنے کا مقصد ترکی کے جنگی جہازوں کی جانب سے شامی فضائی حدود کی خلاف ورزی کو روکنا ہے۔روسی صدر نے کہا کہ جب شام کے لوگ جنگ ختم کر کے بات چیت کا عمل شروع کریں گے ’ہم شام کے لوگوں سے زیادہ شامی ہونے کا ثبوت دیں گے‘ اور ماسکو اپنا فوجی آپریشن لپیٹ دے گا۔انھوں نے کہا کہ وہ یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ روس کو شام میں مستقل فوج اڈہ چاہیے۔روس کے صدر نے کہا کہ زمین سے زمین اور فضا سے زمین کو نشانہ بنانے والے جدید ترین کروز میزائلوں کی وجہ سے روس کو اپنے دشمنوں کو ہدف بنانے کی صلاحیت حاصل ہے اور اسے شام میں فوجی اڈے کی ضرورت نہیں ہے۔صدر نے کہا کہ ماسکو شام پر اقوام متحدہ کی قرارداد کے مسودے کی حمایت کرتا ہے۔شام کا نیا آئین تیار کیا جانا چاہیے اور نئے انتخابات کی تیاری کی جائے تاکہ شام کی عوام اپنا رہنما خود منتخب کر سکیں۔داخلی معاملے پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کابینہ اپنا کام صحیح کر رہی ہے اور میں کوئی ردو بدل نہیں کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ معاشی بحران سے نمٹا جا رہا ہے اور لوگوں کو تبدیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔