کراچی(نیوز ڈیسک)ساگر سہندڑواس وقت دنیا کی آبادی سات ارب سے بڑھ چکی ہے جس میں سے ایک ارب سے زائد انسان کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں جبکہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ کے لگ بھگ افراد معذوری سے دوچار ہیں۔پاکستان کے معذور افراد کی تعداد نیوزی لینڈ، سوئٹزرلینڈ، سوئیڈن اور آسٹریا سمیت کویت کی کل آبادی سے زائد ہے۔آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں معذوراور خصوصی افراد کاعالمی دن”تمام صلاحیتوں کے حامل افراد کویکساں مواقع فراہم کئے جائیں “ کے عنوان سے منایا جا رہا ہے۔عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے1970ء میں دنیا کی دس فیصد آبادی معذور تھی لیکن اس وقت یہ بڑھ کر 15 فیصد ہوچکی ہے اور تقریباً دنیا کا ہر آٹھواں شخص کسی نہ کسی معذوری میں مبتلا ہے۔ترقی پذیر مماملک میں دنیا کے معذور افراد کا پانچواں حصہ رہتا ہے جو اپنی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے۔ ذہنی و جسمانی معذوری میں مبتلا دنیا کے اکثر افراد صحت ، تعلیم، روزگاراور سماجی حیثیت سمیت آگے بڑھنے کے مواقع سے بھی محروم ہیں۔معاشی ترقی کرتے، بلند و بالا عمارتوں سے لدے اور سائنس وٹیکنالوجی میں نام پیدا کرنے والے ممالک میں معزور افراد کو ملکی ترقی میں شامل نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان کی خدمات لی جاتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت ،عالمی بینک اور اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق غربت بڑھنے، صحت اور تعلیم سے محرومی، غیر محفوظ کام کرنے، آلودگی اور پینے کا صاف پانی نہ ملنے سمیت حاجت کی محفوظ سہولتوں کے فقدان سے دنیا بھر میں ذہنی و جسمانی طور پرمعذورہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے معذور اورخصوصی افراد کے حقوق کیلئے بنائے گئے قوانین کی قرارداد میں دنیا کے 182 ممالک شامل ہیں جن میں سے رواں سال تک 153 ممالک نے ملکی قوانین میں ترامیم کی ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے رواں برس ہونے والے جنرل اجلاس نے معذور اور خصوصی افراد کو کسی بھی تفریق سے بالاتر ہوکر قابلیت کی بنیاد پر انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کی قرار داد پاس کی تھی۔انٹرنیشنل لیبر ا?رگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق تندرست اور صحت مند افراد کے مقابلے میں غیرصحت مندافراد میں بے روزگاری کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ بھارت کے 70 لاکھ معذور اور غیر صحت مند افراد میں سے صرف 10 لاکھ کے پاس نوکری ہے جبکہ برطانیہ جیسے ممالک میں 78 فیصد صحت مند افراد کے مقابلے صرف 35 فیصد معذور افراد کو نوکری دی جاتی ہے۔دنیا کے کئی ممالک میں معذور اور خصوصی افراد کے ساتھ امتیازی سلوک رکھا جاتا ہے انہیں تعلیم اور نوکری سمیت دیگر سہولیات میں کوٹے کے تحت مواقع فراہم کئے جاتے ہیں لیکن حال ہی میں دنیا کے 45 مختلف ممالک نے معذور اور خصوصی افراد کا کوٹہ ختم کرکے انہیں عام افراد کی طرح مواقع فراہم کرنے کا قانون بنایا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان نے ابھی تک معذور افراد سے امتیازی سلوک برقرار رکھتے ہوئے انہیں مخصوص کوٹا کے تحت مواقع فراہم کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے معذور افراد سوئٹزرلینڈ، نیوزی لینڈ، لبنان اور کویت کی کل آبادی سے بھی زائد ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ معذور افراد ملتان دوسرے نمبر پر حیدرآباد جبکہ تیسرے نمبر پر پشاور میں موجود ہیں۔تین سال پہلے تک پنجاب کے کل معذور افراد کی تعداد 28 لاکھ سے زائد جبکہ سندھ کے معذور افراد کی تعداد 15 لاکھ کے قریب تھی۔پاکستانی معذوروں کی 66 فیصد ا?بادی دیہی اور34 فیصد آبادی شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔دنیا بھر میں ذہنی و جسمانی معذور افراد ناروا سلوک سمیت دیگر زیادتیوں کا شکار ہیں۔ایک سروے کے مطابق برطانیہ کی ذہنی و جسمانی معذور لڑکیاں اور خواتین غلط استعمال کے استحصال سے دوچار ہیں جبکہ بھارت کی 25 فیصد ذہین ترین معذور خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔پاکستان میں بھی ذہنی و جسمانی معذور لڑکیوں اور خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی خبریں ہر روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔