لاہور(نیوزڈیسک) یقینی طور پر قومی تعطیلات دنیا بھر کے طلبا بالخصوص تنخواہ دار طبقے کیلئے مسرت کا باعث ہوتی ہیں لیکن اگر پاکستان میں ہڑتال یا پھر سرکاری چھٹی کی وجہ سے ایک دن کیلئے بھی کاروباری سرگرمیاں بند ہوجائیں اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ ہماری پوری معیشت کا حساب کتاب تحریری طور پر مجود ہے تو اپنی معمولی سی 288 ارب ڈالرز کی جی ڈی پی کو سال کے 365 دن سے تقسیم کرکے معلوم ہوگا کہ ایک دن کی چھٹی اور مکمل بندش کی وجہ سے قومی خزانے کو 0.789 ارب ڈالرز یعنی 82 ارب 24 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ جنگ گروپ کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق کے دوران پاکستانی روپے اور امریکی ڈالر کے درمیان فرق کو ذہن میں رکھا ہے جو 105.50 روپے فی امریکی ڈالر کے ریٹ پر ہے۔ جہاں تک پاکستان کی 288 ارب ڈالرز کی جی ڈی پی کا تعلق ہے تو یہ بات آئی ایم ایف کے ورلڈ اکنامک آئوٹ لک ڈیٹا بیس برائے اپریل 2015ء میں موجود ہے۔ ورلڈ بینک اور سی آئی اے کی جانب سے بتائے جانے والے اعداد و شمار آئی ایم ایف کے حساب کتاب سے زیادہ مختلف نہیں۔ روزنامہ جنگ کے صحافی صابرشاہ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق چھٹی کے نتیجے میں ایک دن میں 82.84 ارب روپے کے نقصان میں پیداوار اور سروسز کی مد میں ہونے والی دستاویزی آمدنی ہے، کیونکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اگست 2012ء میں تخمینہ لگایا تھا کہ پاکستان کی متوازی اور زیر زمین معیشت بڑھ کر پاکستان کی دستاویزی آمدنی کے مقابلے میں اس کے آدھے تک پہنچ چکی ہے۔ اگر ایف بی آر کے اگست 2012ء کے مفروضے پر یقین کیا جائے، اور اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ پاکستان کی 50 فیصد آمدنی متوازی ہے اور اس کا کوئی حساب نہیں، تو قومی تعطیل کی وجہ سے ایک کی کاروباری بندش کے نتیجے میں تقریباً 164.48 ارب روپے کا نقصان ہوگا۔ پاکستان جیسے مقروض ملکوں کی مایوس کن معیشتوں کو دیکھتے ہوئے، صرف 24 گھنٹوں یا ایک دن میں 164.48 ارب روپے کا نقصان بہت زیادہ ہے، اور یہ ہمارے ملک کی بہتری کیلئے کوشاں معیشتوں کیلئے تو کچھ زیادہ ہی ہے۔ جی ہاں، تنخواہ دار طبقہ تو ایک دن کی چھٹی کی تنخواہ بھی وصول کرتا ہے، اور تھوک فروش اور خاطر و مدارت یا میزبانی کے شعبے سے وابستہ افراد کی بھی اضافی آمدنی ہوجاتی ہے لیکن اسی دوران بھاری سرمایہ لگانے والی صنعتیں اور ایسے برآمدی یونٹس بھی ہیں جنہیں پیداواریت کے معاملے میں نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ افسوس ناک صورتحال فی کس جی ڈی پی (11 ہزار 513 ڈالرز) اور جی ڈی پی فی سیکٹر پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اور یہ وہ مقام ہے جہاں عوام کو آمدنی کے شعبے میں کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مذکورہ بالا الفاظ کے ذریعے اور معیشت کے مشکل ترین اور تکنیکی الفاظ کے استعمال کے بغیر ہی ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح ہمیں نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جہاں تک ریستورانوں اور دکانوں پر قومی تعطیلات کے دوران اضافی کاروباری سرگرمیوں کا تعلق ہے، تو یہ کسی بھی ملک کی جی ڈی پی میں ایک معمولی حصہ ادا کرتی ہیں۔ مثلاً 9 اپریل 2012ء کو بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، برطانوی معیشت کا صرف 15 فیصد حصہ سمجھے جانے والے بار، کلب، ریستوراں، دکانیں اور سیاحتی مقامات دراصل بینکوں کی چھٹی کے دن ہی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ دنیا بھر میں صرف ایک دن کی کاروباری سرگرمیوں کی بندش کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانا مشکل ہے، اور اندازہ لگانے کا یہ کام اس وقت مشکل ہوجاتا ہے جب پاکستان جیسے متوازی معیشت رکھنے والے ملک سے واسطہ پڑے۔ یہ بات اہم ہے کہ 29 جنوری 2013 کو پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے اس وقت کے قائم مقام صدر اقبال دائود نے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی موجودگی میں یہ انکشاف کیا تھا کہ صرف کراچی میں ایک دن کی ہڑتال کی وجہ سے قومی معیشت کو 10 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اگر صرف کراچی کے متعلق ہی اقبال دائود کے اعداد و شمار کو بنیاد بنایا جائے تو ایک دن کی بندش کی وجہ سے ملکی معیشت کو 82.24 ارب روپے کے نقصان کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ اگرچہ انگلینڈ اور ویلز (برطانیہ) میں صرف 8 قومی تعطیلات ہیں، جو دنیا بھر میں سب سے کم تصور کی جاتی ہیں، 2012ء میں یونائیٹڈ کنگڈم سینٹر آف اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ نے بتایا تھا کہ بینک کی ہر ایک چھٹی کی وجہ سے برطانوی معیشت کو 2.3 ارب پائونڈز کا نقصان ہوتا ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم سینٹر آف اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ معیشت کی کنسلٹنسی کیلئے برطانیہ کا سرکردہ ادارہ ہے اور یہ ادارہ گزشتہ 20 برس سے آزاد معیشتوں کے متعلق پیشگوئیاں کر رہا ہے اور سیکڑوں نجی کمپنیوں اور سرکاری تنظیموں اور اداروں کا جائزہ لیتا رہا ہے۔ جون 2012ء میں انگلینڈ میں اس وقت چیخ و پکار مچ گئی تھی جب ملکہ برطانیہ کی ڈائمنڈ جوبلی تقریب منانے کیلئے عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔ کئی معروف برطانوی میڈیا اداروں بشمول ٹیلی گراف، دی میل وغیرہ نے بتایا کہ صرف اس ایک چھٹی کی وجہ سے ملکی معیشت کو ایک دن میں 1.2 ارب پائونڈ کا نقصان ہوگا اور ممکن ہے کہ یہ نقصان بڑھ کر 3.6 ارب پائونڈ تک جا پہنچے۔ برطانیہ میں ایک اور عام تعطیل 29 اپریل 2011ء کو ہوئی تھی جب شہزادہ ولیم اور کیتھرین مڈلٹن کی شادی ہوئی تھی اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت برطانیہ کے قومی خزانے کو ایک دن میں 1.25 ارب پائونڈ کا نقصان ہوا تھا۔ 23 نومبر 2010ء کو برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے لکھا تھا کہ شہزادہ ولیم کی کیتھرین مڈلٹن کے ساتھ شادی کی وجہ سے قومی خزانے کو پانچ ارب پائونڈ کا نقصان ہوگا کیونکہ اس وقت اپریل میں ویک اینڈ چار دن کا ہوجائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ برطانیہ میں 22 اپریل سے 2 مئی کے دوران کاروباری سرگرمیاں صرف تین دن کیلئے کھلی رہیں گی کیونکہ شادی سے پہلے ایسٹر کی تعطیلات ہوں گی اور پیر کے بعد یوم مئی کی چھٹی ہوگی۔ 23 نومبر 2010 کو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا تھا کہ شادی کے اخراجات خود شاہی خاندان ادا کرے گا، حکومت صرف سیکورٹی اور ٹرانسپورٹ کی مد میں ہونے اولے اخارجات ادا کرے گی۔ لیکن برطانوی محکمہ برائے کاروبار، ایجادات اور ہنر کی توقعات کے مطابق اسکاٹ لینڈ کو چھوڑ کر باقی ملک کی معیشت کو 2.9 ارب پائونڈ کا نقصان ہوگا۔ اسکاٹ لینڈ اپنی چھٹیاں خود علیحدہ طے کرتا ہے۔ چند ماہ قبل 28 اپریل 2015 کو ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق رائل بینک آف اسکاٹ لینڈ اور یونائیٹڈ کنگڈم کے ناٹ ویسٹ بینک نے 4 مئی کی بینک کی چھٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور 4 مئی 2015 کو اپنی تمام شاخیں کھلی رکھنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح بھارت میں صرف ایک دن کیلئے کاروباری سرگرمیاں بند رہیں تو ملک کو 250 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے (حوالہ 2 ستمبر 2015 اکنامک ٹائمز رپورٹ)۔ امریکا میں ہر قومی تعطیل کی وجہ سے ملکی معیشت کو ملازمین کی تنخواہوں اور پیداواری یونٹس بند ہونے کے نتیجے میں 450 ملین ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔ 2002ء کی ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ تحقیقی اداروں نے بتایا تھا کہ 9/11 کے دن چھٹی کا اعلان نہ کیا جائے کیونکہ اس دن قومی تعطیل کے نتیجے میں ملکی معیشت کو 43 ملین ڈالرز کا نقصان ہوگا۔