گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘ رستم ہند کہلاتا تھا‘ ان کا پورا نام غلام محمد بخش بٹ تھا‘ امرتسر کے قریب جبووال میں 1878ء میں پیدا ہوا اور اپنے زمانے کے تمام پہلوانوں کو پچھاڑ کر رستم ہند اور ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپیئن بن گیا‘ نواز شریف کی مرحومہ اہلیہ بیگم کلثوم نواز گاماں پہلوان کی پوتی تھیں‘ میں اصل قصے کی طرف آنے سے قبل آپ کو گاماں پہلوان کے بارے میں چند دل چسپ چیزیں بتاتا چلوں‘گاماں پہلوان قیام پاکستان کے بعد لاہور شفٹ ہو گیا‘ وہ مالی لحاظ سے اس کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا‘ وہ پہلوانی بھی جاری رکھنا چاہتا تھا اور اپنا اکھاڑہ بھی چلانا چاہتا تھا لیکن روپیہ پیسہ نہیں تھا‘ اس زمانے میں پہلوانوں کی خوراک بہت اچھی ہوتی تھی‘ اس میں بادام اوردرجن بھر مغزیات ہوتے تھے اور بکرے کا تازہ گوشت اور دیسی گھی بھی‘ گاماں صاحب مالی تنگی کی وجہ سے خوراک کے بحران کا شکار ہو گئے چناں چہ انہوں نے امداد کے لیے قائداعظم کو خط لکھ دیا‘
قائداعظم جسمانی لحاظ سے کم زور تھے‘ ان کا وزن بھی کم تھا اور وہ دھان پان بھی تھے‘انسانی نفسیات کے مطابق جسمانی لحاظ سے کم زور لوگ ہمیشہ مضبوط‘ لمبے تڑنگے اور صحت مند لوگوں کو پسند کرتے ہیں‘ قائداعظم کو بھی پہلوان‘ ریسلر‘ باڈی بلڈر اور باکسر اچھے لگتے تھے لہٰذا قائداعظم ہمیشہ تگڑے اور مضبوط کاٹھی کے لوگوں کو ملازم رکھتے تھے‘ قائد کا ڈرائیور آزاد بھی سوا چھ فٹ کا ’’ویل بلڈ‘‘ شخص تھا‘ آزاد قیام پاکستان کے بعد فلموں میں آیا اور بڑا نام کمایا‘ قائداعظم گاماں پہلوان کو بھی پسند کرتے تھے چناں چہ انہوں نے گاماں کا خط اس کی خوراک کی فہرست کے ساتھ پنجاب کے گورنر سر فرانسس مودی کو بھجوا دیا‘ گورنر نے خط پڑھا‘ خوراک کی فہرست دیکھی اور مسکرا کر کہا ’’پورے پنجاب کی خوراک ایک طرف اور گاماں پہلوان کا کھانا ایک طرف‘ ہم دیوالیہ ہو جائیں گے‘‘ ۔میں اب اصل قصے کی طرف واپس آتا ہوں‘ گاماں پہلوان ایک دن لاہور کی کسی تنگ گلی سے گزر رہا تھا‘ سامنے کسی کا اڑیل بیل کھل گیا‘ بیل تیزی سے گاماں پہلوان کی طرف دوڑ پڑا‘ پہلوان صاحب نے چند لمحوں میں صورت حال کا اندازہ کیا‘ واپس مڑے اور دوڑ لگا دی‘ اب صورت حال یہ تھی رستم ہند گاماں پہلوان آگے آگے تھا اور بیل اس کے پیچھے پیچھے اور لوگ گاماں پہلوان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے‘ راستے میں کسی کا گھر آ گیا‘ گاماں پہلوان نے چھلانگ لگائی اور اس گھر میں گھس کر پناہ لے لی‘ لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے‘ وہ بہت حیران ہوئے‘ کیوں؟ کیوں کہ انہوں نے گاماں کی بہادری کے بے شمار قصے سن رکھے تھے جن میں پہلوان صاحب بیل کو سینگ سے پکڑ کر زمین پر بھی گرا دیتے تھے لیکن جب بہادری کا عملی ثبوت دینے کا وقت آیا تو گاماں آگے تھا اور بیل پیچھے‘ یہ دیکھ کر لوگوں کو بہت افسوس ہوا اورگاماں پہلوان کی بہادری کے سارے قصے جھوٹے اور زیب داستان محسوس ہونے لگے‘ اس کا اظہار شام کے وقت ان کے ایک شاگرد نے کر بھی دیا‘ گاماں پہلوان سن کر ہنسا اور پھر بولا ’’پتر میرا میدان اکھاڑہ ہے‘ گلی نہیں اور میں پہلوانوں سے لڑتا ہوں بیلوں سے نہیں‘‘ وہ رکا اور پھر آہستہ سے بولا ’’بیٹا یہ یاد رکھو زندگی میں ہر وقت اور ہر جگہ لڑنا نہیں ہوتا بعض اوقات دوسروں کو راستہ بھی دے دینا چاہیے اور اپنی جان بھی بچالینی چاہیے‘ تم اگر ہر جگہ لڑتے بھڑتے رہو گے تو پھر تمہاری ویلیو‘ تمہاری عزت ختم ہو جائے گی تم پھر پہلوان نہیں رہو گے‘ بیل بن جائو گے‘‘ وہ رکا اور پھر تاریخی الفاظ کہے ’’پتر میں اگر بیل کو زمین پر گرا بھی لیتا تو مجھے کون سا تمغہ مل جاتا‘ لوگ روز گلیوں میں بیل گراتے رہتے ہیں‘ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہوتی لہٰذابیل کو ہر انے کے بعد میری عزت میں کوئی اضافہ نہ ہوتا‘ میں گامے کا گاماں ہی رہتا لیکن اگر وہ بیل مجھے گرا دیتا‘ میں اس سے ہار جاتا تو کیا میں اس کے بعد گاماں رہتا؟ کیا لوگ پوری زندگی یہ نہ کہتے گاماں بیل سے ہار گیا تھا چناں چہ یاد رکھو ساری لڑائیاں آپ کی لڑائیاں نہیں ہوتیں‘ وہاں لڑو جہاں عزت ہو‘ بے عزتی کا سودا نہ کرو‘‘۔
عمران خان یہی غلطی کر بیٹھے ہیں‘ یہ ایک ایسی جنگ چھیڑ بیٹھے ہیں جس میں ان کی صرف اور صرف بے عزتی ہے‘ یہ اگر یہ جنگ جیت بھی گئے تو بھی ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا‘ خان میں بے شمار خوبیاں ہیں‘ یہ خواب دیکھنے والے انسان ہیں‘ یہ ناممکنات کو ممکن بنانے کے ماہر بھی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں شہرت سے بھی نواز رکھا ہے‘ یہ ’’گیو اپ‘‘ نہیں کرتے اور یہ بہادر بھی ہیں اور جیل بھی برداشت کر گئے ہیں لیکن ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان میں چند خوف ناک خامیاں بھی ہیں‘ یہ بہت برے ٹیم میکر ہیں‘ یہ جب بھی ٹیم بنائیں گے ان کی نظر ہمیشہ عثمان بزدار‘ محمود خان‘ علی امین گنڈا پور‘ سہیل آفریدی اور شہباز گل جیسے لوگوں پر پڑے گی اور یہی لوگ بعدازاں ان کے لیے ڈیزاسٹر ثابت ہوتے ہیں‘ دوسرا یہ عاجزی سے محروم ہیں‘ انا‘ تکبر اور ضد ہمیشہ ان کے راستے کی بڑی رکاوٹ رہی اور تیسرا یہ بولتے بہت زیادہ ہیں اور زیادہ بولنا سیاست دانوں اور لیڈروں کے لیے اتنا ہی خطرناک ہوتا ہے جتنا نمک بلڈ پریشر اور چینی شوگر کے مریضوں کے لیے‘خاموشی اور مختصر گفتگو سیاست دانوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے عمران خان اس سے محروم ہیں اور ان کی آخری اور سب سے بڑی خامی یہ ایک ایسی جنگ چھیڑ بیٹھے ہیں جس میں اگر یہ جیت بھی جائیں تو بھی یہ ہارے ہوئے سمجھے جائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ پاکستان ہے‘ ملک اس کے بغیر چل سکتا ہے اور نہ بچ سکتا ہے‘ عمران خان اگر اسے کم زور کر دیتے ہیں یا تباہ کر دیتے ہیں تو ملک نہیں بچ سکے گا اور اگر ملک ہی نہیں رہا تو پھر عمران خان کس پر حکومت کریں گے‘ کیایہ بھارت یا سنٹرل ایشیا کے وزیراعظم بنیں گے؟ چناں چہ ملک کا قائم رہنا ضروری ہے اور یہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے بغیر ممکن نہیں اور یہ حقیقت صرف پاکستان کی حقیقت نہیں بلکہ دنیا کے تمام ملکوں کو ان کی اسٹیبلشمنٹ چلاتی ہے‘ فرض کریں اگر بھارت میں را اور فوج ختم ہو جائیں‘ اسرائیل میں موساد اور ائیرفورس‘ امریکا میں سی آئی اے اور نیوی‘ روس میں کے جی بی اور میزائل فورس اور چین میں ایم ایس ایس اور پیپلز لبریشن آرمی ختم ہو جائے توکیا یہ ملک بچ جائیں گے؟ جی نہیں‘یہ سب ختم ہو جائیں گے لہٰذا اگر آپ کسی ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ اس کی فوج اور خفیہ ادارے ختم یا کم زور کر دیں‘ وہ ملک خودبخود ختم ہو جائے گا‘ ہندوستان 1947ء میں کیوں اور کیسے تقسیم ہوا تھا؟ اس کی وجہ دوسری جنگ عظیم تھی‘
جنگ میں برطانیہ کی اسٹیبلشمنٹ کم زور ہو گئی لہٰذا انگریز ہندوستان سے نکلنے پر مجبور ہو گیا‘ یہ حقیقت ہے تلخ لیکن یہ ہے حقیقت اور عمران خان اس کا ادراک نہیں کر رہے‘ ہمیں یہاں یہ بھی ماننا ہو گا پاکستان کی تاریخ میں جتنی سہولتیں اور رعایتیں عمران خان کو دی گئیں اتنی قائداعظم کو بھی نہیں ملیں‘ وہ بے چارے فٹ پاتھ پر اس عالم میں فوت ہو گئے کہ ان کا سر فاطمہ جناح کی گود میں تھا اور وہ گتے کے ٹکڑے سے انہیں ہوا دینے کی کوشش کر رہی تھیں جب کہ عمران خان کو تمام تر گستاخیوں کے باوجود آج بھی ایکسرسائز اور دیسی خوراک کی سہولت حاصل ہے‘ آج بھی ایک صوبے میں ان کی حکومت ہے اور ان کی پارٹی چاروں صوبوں میں موجود ہے اور یہ پارٹی کسی بھی وقت کسی بھی جگہ کچھ بھی کر سکتی ہے‘ ان کے لوگ میڈیا اور سوشل میڈیا پر کسی کو بھی گالی دے سکتے ہیں اور ریاست خاموشی سے دیکھتی رہتی ہے‘ کیا پاکستان کی تاریخ میں یہ سہولت کسی دوسرے لیڈر کو ملی؟ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بار جنرل ضیاء الحق کو دھمکی دی تھی‘ میں تمہاری مونچھوں سے اپنے بوٹوں کے تسمے بنائوں گا اور اس کے بعد بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی کا کیا حشر ہوا ؟ میاں نواز شریف نے صرف ایک بار کہا تھا‘ میں استعفیٰ نہیں دوں گا اور اس کے بعد وہ استعفیٰ دینے کے قابل نہیں رہے‘ یہ آج بھی ماضی کی گستاخیوں کی سزا بھگت رہے ہیں اور الطاف حسین کی مثال بھی سب کے سامنے ہے‘ الطاف حسین نے 22اگست 2016ء کو کراچی میں ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے صرف دو لفظ بولے تھے اور اس کے بعد آج تک ملک میں کوئی ان کا نام نہیں لے سکتا جب کہ عمران خان نے کیا کیا نہیں کہا؟ کیا کیا نہیں کیا اور یہ آج بھی کیا کیا نہیں کہہ رہے لیکن یہ اس کے باوجود جیل میں فائیو سٹار سہولتیں انجوائے کر رہے ہیں‘ کیا یہ سسٹم کے لاڈلے نہیں ہیں؟۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ملک کی باقی تمام پارٹیوں کے بارے میں شک کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن پی ٹی آئی سو فیصد اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی تھی‘ عمران خان کو سیاست میں لانے کا سہرا جنرل حمید گل مرحوم کے سر جاتا ہے‘ یہ انہیں قائل کر کے سیاست میں لائے تھے‘ ان کی پارٹی رجسٹریشن جنرل مجیب الرحمن نے کرائی تھی‘ یہ ان کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے اور انہوں نے ہی پارٹی کا دفتر کھولا تھا‘ عمران خان کو قومی اسمبلی کی پہلی سیٹ جنرل پرویز مشرف نے دلائی تھی‘ پی ٹی آئی کو پاپولریٹی اور مالی امداد جنرل پاشا نے دلائی تھی‘ اسے 2013ء میں قومی اسمبلی میں 35سیٹیں جنرل ظہیرالاسلام نے دلائی تھیں اورخان کو وزیراعظم جنرل باجوہ نے بنایا تھا اور ان کی حکومت جنرل فیض حمید چلاتے اور بچاتے رہے تھے اور مولانا فضل الرحمن 2024ء میں کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت کا ذمہ دار جنرل ندیم انجم کو ٹھہراتے ہیں اور کیا یہ بھی حقیقت نہیں پی ٹی آئی کی نوے فیصد قیادت کے ملٹری کنکشن ہیں‘ یہ کسی نہ کسی فوجی افسر کے بھائی‘ صاحب زادے یا رشتے دار ہیں لیکن اس کے باوجود عمران خان خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ یہ جنرل باجوہ کو میر صادق اور میرجعفر کہتے رہے اور جنرل عاصم منیر کو ذہنی مریض یعنی جو آرمی چیف آپ کی حکومت نہیں بچائے گا یا آپ کو جیل سے نکال کر اقتدار میں نہیں لائے گا وہ ذہنی مریض ہو گا یا پھروہ میر جعفر اور میر صادق ہوگا اور جو ڈی جی آئی ایس پی آر اپنے ادارے اور اپنے ملک کی بات کرے گا آپ اسے ’’تم ہوتے کون ہو؟‘‘ کا طعنہ دیں گے‘ یہ کیا ہے؟ یہ وہ لڑائی ہے جو عمران خان نہیں جیت سکیں گے اور اگر خدانخواستہ یہ جیت بھی گئے تو پھر پاکستان نہیں بچے گا۔
دنیا میں حماقتوں کو پرکھنے کے بے شمار طریقے ہیں لیکن ان میں ایک طریقہ یہ بھی ہے‘ آپ جب کوئی غلطی یا حماقت کریں تو یہ دیکھیں سامنے موجود لوگوں میں سے کون آپ کی چول پر تالیاں بجا رہا ہے‘ وہ اگر آپ کا دوست ہے تو سمجھ جائیں یہ آپ کا دوست نہیں ہے اور اگر وہ آپ کا دشمن ہے تو پھر آپ جان لیں آپ اپنے دشمن کا بھلا کر رہے ہیں‘ عمران خان کو بھی اب اپنی سیاسی حماقتوں کے بعد دائیں بائیں دیکھ لینا چاہیے‘ انہیں دیکھنا چاہیے ان کی غلطیوں پر پارٹی کے اندر سے کون واہ واہ کر رہا ہے اور دوسرا بھارت اور طالبان ان کے لیے کیوں تالیاں بجا رہے ہیں؟ ان کو ساری گیم سمجھ آ جائے گی اور آخری چیز گاماں پہلوان کی تجویز کو ذہن میں رکھیں‘ ساری لڑائیاں لڑنے کے لیے نہیں ہوتیں بعض جنگوں سے بچ جانا‘ بعض لڑائیوں سے بھاگ جانا بھی بہادری ہوتی ہے‘ ایک جاپانی کہاوت ہے آپ جو جنگ جیت نہیں سکتے آپ کو وہ جنگ کبھی شروع نہیں کرنی چاہیے‘ عمران خان بھی اگر ملک‘ پارٹی اور اپنی خیر چاہتے ہیں تو پھر انہیں یہ جنگ بند کرنی ہو گی ورنہ یہ جنگ خان کے ساتھ ساتھ ملک کا سر بھی لے جائے گی۔















































