واشنگٹن(نیوز ڈیسک)اوباما انتظامیہ نے سنہ 2016 کے لیے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے ملنے والی رقم یعنی کولیشن سپورٹ فنڈز جاری رکھنے کے لیے کانگریس کے سامنے درخواست بھیج دی ہے لیکن اس کے بعد اس کے مستقبل پر کچھ بھی کہنے سے انکار کیا ہے۔جمعرات کو واشنگٹن میں انتظامیہ کے ایک اہلکار نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بی بی سی اردو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ بات کہی ہے۔امریکی انتظامیہ نے پاکستان کی طرف سے لشکر طیبہ اور اس کے حامی دھڑوں کے خلاف کارروائی کرنے کے وعدے کو ایک نئی پہل قرار دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی کشمیر مسئلے پر مصالحت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔انتظامیہ کے ایک اعلی اہلکار نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ’پاکستان کافی عرصے سے اس طرح کا مطالبہ کرتا رہا ہے لیکن صدر اوباما کہہ چکے ہیں کہ وہ اس کے لیے صرف اس صورت میں راضی ہوں گے جب بھارت اور پاکستان دونوں اس کے لیے تیار ہوں۔‘لائن آف کنٹرول کی نگرانی کے لیے جس طرح کی میکنزم کا ذکر وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقات کے بعد جاری مشترکہ بیان میں کیا گیا ہے اس پر بھی اہلکار کا کہنا تھا کہ اس کے لیے بھارت اور پاکستان دونوں ہی کو تیار ہونا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کو باہمی معاملے دو طرفہ بات چیت سے حل کرنے ہوں گے۔خیال رہے کہ صدر اوباما کے ساتھ ملاقات کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا، ’کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے کوئی دو طرفہ گفتگو نہیں ہو رہی تو ایسے میں ایک تیسری قوت کو ایک کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر بھارت نہیں مانتا ہے تو یہ رکاوٹ ہوگی۔‘لائن آف کنٹرول پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کی بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک ایسے میکنزم کی ضرورت ہے جو یہ دیکھ سکے کہ کس طرف سے فائرنگ میں پہل کی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کو انتہائی بری طرح خلاف ورزی کی گئی ہے۔‘لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے اوباما اتنظامیہ کے اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے یہ ایک نئی پہل ہے اور یہ انتہائی اہم ہے۔ان کا کہنا تھا: ’نیشنل ایکشن پلان کے تحت پاکستان نے پہلے ان تنظیموں کو نشانہ بنایا جو پاکستان کے خلاف ہیں۔ اب انھوں نے اسی نیشنل ایکشن پلان کے تحت لشکر طیبہ اور اس کے حامی گروپوں کے خلاف کارروائی کی بات کی ہے۔‘انھوں نے پاکستان کے اس فیصلے کو قابل تعریف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دکھائی دیتا ہے کہ اب پاکستان سمجھتا ہے کہ ان گروپوں سے پاکستان، آس پڑوس کے ملک، امریکہ اور دوسرے ممالک کو خطرہ ہے۔اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت کے خلاف ثبوتوں کے دستاویز سیکریٹری خارجہ جان کیری کو پیش کر دیے ہیں لیکن فی الحال اس پر کوئی بیان دینے سے انکار کیا۔