جمعہ‬‮ ، 07 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

ٹرمپ کے ارب پتی حامی اور ممدانی کے ارب پتی مخالفین، امریکا دو حصوں میں بٹ گیا

datetime 6  ‬‮نومبر‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکا میں ایک بار پھر ارب پتی طبقہ سیاست اور معیشت دونوں میں مرکزی بحث بن چکا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہی طبقہ ترقی کی بنیاد ہے، جبکہ دوسروں کے نزدیک یہی لوگ دولت کی غیر مساوی تقسیم اور معاشرتی ناہمواری کے اصل ذمہ دار ہیں۔نیویارک سٹی میں ہونے والے حالیہ میئر الیکشن نے اس بحث کو نئی جان بخشی ہے، جہاں 34 سالہ ظہران ممدانی — جو افریقہ میں پیدا ہونے والے بھارتی نژاد امریکی اور ڈیموکریٹک سوشلسٹ ہیں — نے تاریخ رقم کرتے ہوئے شہر کے پہلے مسلمان میئر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ تقریباً پچیس سال بعد اس انتخاب میں ریکارڈ ووٹر ٹرن آؤٹ دیکھا گیا، اور اکثریت نے ظہران کے ان نظریات پر اعتماد ظاہر کیا جو امیروں پر زیادہ ٹیکس اور عوامی فلاح پر زیادہ خرچ کے حامی ہیں۔ممدانی کا کہنا ہے کہ وہ مہنگائی، بڑھتے کرایوں اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہیں۔

ان کے مجوزہ اقدامات میں کارپوریٹ ٹیکس میں اضافہ اور ایک ملین ڈالر سے زائد آمدنی والوں پر اضافی 2 فیصد ٹیکس شامل ہے۔ان کی جیت کو بائیں بازو کے نظریات کی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، جہاں متوسط اور محنت کش طبقے کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ امیر طبقے پر زیادہ ٹیکس لگانے سے سماجی فلاح کے لیے نئے وسائل پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم، ناقدین کے مطابق یہ پالیسی سرمایہ کے فرار اور کاروباری طبقے میں بداعتمادی پیدا کرسکتی ہے۔فتح کے بعد اپنی تقریر میں ممدانی نے مزدور طبقے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:“جن ہاتھوں نے گوداموں میں بکس اُٹھائے، جن ہتھیلیوں پر سائیکل کے ہینڈل کے نشان ہیں اور جن انگلیوں پر باورچی خانے کے زخم ہیں، آج وہی ہاتھ طاقت کے مالک بن گئے ہیں۔”یہ انتخاب صرف ایک سیاسی مقابلہ نہیں بلکہ نظریاتی جنگ بھی تھی — یہ سوال کہ کیا ارب پتی طبقہ ملک کی ترقی کے لیے لازمی ہے یا عدم مساوات کی جڑ؟ممدانی نے واضح طور پر کہا:“میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں ارب پتی افراد کی ضرورت ہے۔”دوسری طرف سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ — جو خود ایک ارب پتی ہیں — نے اپنے پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ممدانی کو “کمیونسٹ امیدوار” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ میئر بنے تو وہ نیویارک کے لیے وفاقی فنڈز محدود کر دیں گے۔یہ ٹکراؤ دراصل سیاست اور معیشت دونوں کا ہے۔ ٹرمپ کے نزدیک ملک کے مسائل کی جڑ غیر قانونی تارکین وطن، غیر منصفانہ تجارتی پالیسیاں اور میڈیا کا کردار ہے، جبکہ ممدانی کا ماننا ہے کہ یہ سب امیروں کے حق میں بنائے گئے ٹیکس نظام کا نتیجہ ہے۔

الیکشن سے ایک دن قبل ممدانی نے بروکلین برج پر واک کرتے ہوئے کہا تھا:“میں نیویارک کو ایسا شہر بناؤں گا جو نہ صرف ٹرمپ جیسے خطرات کا مقابلہ کرے بلکہ غربت اور بحران سے بھی نکلے، جو ہر چار میں سے ایک شہری کو متاثر کر رہا ہے۔”امریکا میں ارب پتیوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 3,503 عالمی ارب پتیوں میں سے 1,135 امریکا میں ہیں، جو مجموعی عالمی دولت کا 43 فیصد رکھتے ہیں۔ صرف گزشتہ سال ان کی مجموعی دولت 13 کھرب ڈالر سے تجاوز کر گئی — جو کئی ممالک کی پوری معیشت سے زیادہ ہے۔اعداد و شمار کے مطابق، ارب پتی افراد اگرچہ کل آبادی کا صرف 0.07 فیصد ہیں، لیکن وہ دنیا کی دولت کے 13 فیصد پر قابض ہیں۔امریکی میڈیا کے مطابق یہ طبقہ بظاہر سوشل میڈیا پر عوام سے جڑا ہوا دکھائی دیتا ہے، مگر حقیقت میں عام شہری ان سے پہلے سے زیادہ دور ہو چکے ہیں۔ بڑھتے کرائے، صحت کے اخراجات اور مہنگائی نے درمیانی طبقے کو شدید دباؤ میں ڈال دیا ہے۔امریکی فیڈرل ریزرو کے مطابق، ملک کی کل دولت کا 67 فیصد صرف امیر ترین 10 فیصد افراد کے پاس ہے، جب کہ نچلے 50 فیصد کے حصے میں صرف 2.5 فیصد دولت آتی ہے۔ نیویارک میں ایک عام اپارٹمنٹ کی قیمت ایک ملین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے اور اوسط کرایہ ایک عام خاندان کی آمدنی کا نصف سے زیادہ ہڑپ کر جاتا ہے۔1950 سے 1970 کی دہائی تک آمدن کی تقسیم نسبتاً متوازن تھی، مگر اس کے بعد سے دولت کا بڑا حصہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو گیا۔ آج “ایک فیصد” طبقے کی آمدن مسلسل بڑھ رہی ہے، جب کہ عام شہری کی اجرت مہنگائی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو پا رہی۔ممدانی نے اپنی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ غربت، بے گھری اور مہنگائی کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح بنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا:“جب ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے نئے بال روم پر 30 کروڑ ڈالر خرچ کر رہے ہیں، تو وہی رقم ایک لاکھ نیویارک باشندوں کو خوراک کی سہولت دینے کے لیے استعمال ہو سکتی تھی۔”آخرکار، یہ سیاسی کشمکش دراصل ایک قدیم بحث کی نئی شکل ہے — دولت، طاقت اور انصاف کی تقسیم پر جاری جدوجہد۔امریکا آج بھی دو نظریاتی دنیاؤں میں بٹا ہوا ہے:ایک وہ جو سمجھتا ہے کہ ارب پتی ترقی کی علامت ہیں،اور دوسرا وہ جو یقین رکھتا ہے کہ یہی طاقت عوام میں بانٹنا حقیقی انصاف ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



آئوٹ آف سلیبس


لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…

یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ

لیڈی اینا بل ہل کا تعلق امریکی ریاست جارجیا سے…