کینبرا (این این آئی )آسٹریلوی محققین نے ایک مطالعے میں انکشاف کیا ہے کہ خواتین جینیاتی طور پر مردوں کے مقابلے میں ڈپریشن کے عوارض کا شکار ہونے کے زیادہ خطرے میں ہیں۔عرب ٹی وی کے مطابق یہ مطالعہ اس بیماری کے علاج کے طریقے کو بدل سکتا ہے۔تحقیق کے نتائج جریدے “نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہوئے ہیں۔ یہ مطالعہ اس میدان میں اب تک کیے گئے سب سے بڑے مطالعوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
سائنسدانوں نے ڈپریشن میں مبتلا تقریبا 2 لاکھ افراد کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا تاکہ عام جینیاتی نشانات کی شناخت کی جا سکے۔آسٹریلیا کے برگھوفر میڈیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی سربراہی میں چلنے والے اس منصوبے کے مطابق خواتین میں مردوں کے مقابلے میں ڈپریشن سے منسلک جینیاتی نشانات کی تعداد تقریبا دو گنا تھی۔ محقق جودی تھامس نے ایک بیان میں وضاحت کی کہ مردوں اور خواتین میں عام اور مخصوص جینیاتی عوامل کی شناخت ہمیں ڈپریشن کی وجوہات کو بہتر طور پر سمجھنے کی اجازت دیتی ہے اور مزید مخصوص علاج کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔محققین نے خواتین میں ڈپریشن سے منسلک تقریبا 13,000 جینیاتی نشانات کی شناخت کی اور مردوں میں یہ تعداد 7,000 تھی۔ ان میں سے کچھ جینیاتی اختلافات میٹابولزم کے عمل یا ہارمونز کی پیداوار کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔
جودی تھامس نے کہا ہے کہ ہم نے کچھ جینیاتی اختلافات دریافت کیے ہیں جو یہ وضاحت کرنے میں مدد کر سکتے ہیں کہ ڈپریشن میں مبتلا خواتین میں زیادہ میٹابولک علامات کیوں ہوتی ہیں۔ان میں وزن میں اتار چڑھا یا توانائی کی سطح میں تبدیلیوں کی علامات بھی شامل ہوتی ہیں۔ ڈپریشن سب سے عام نفسیاتی عوارض میں سے ایک ہے جو عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 300 ملین سے زیادہ افراد کو متاثر کرتا ہے۔ محقق برٹنی مچل نے کہا کہ اب تک ڈپریشن کے خواتین اور مردوں پر مختلف اثرات کی وضاحت کے لیے بہت سے قابل اعتماد مطالعے نہیں کیے گئے ہیں۔اس حوالے سے جینیاتی عوامل کے ممکنہ کردار پر بھی قابل اعتماد مطالعوں کی کمی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بڑھتے ہوئے مضامین کی تعداد اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ فی الحال تیار کی جا رہی بہت سی ادویات اور اب تک کی گئی تحقیق بنیادی طور پر مردوں پر مرکوز ہے۔