اسلام آباد (نیوز ڈیسک)عالمی بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ 2030 تک جنوبی ایشیا کی تقریباً 89 فیصد آبادی شدید گرمی جبکہ 22 فیصد آبادی شدید سیلاب کے خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ خطہ دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں سب سے زیادہ موسمیاتی خطرات کا شکار ہے۔ مالی وسائل کی کمی کے باعث موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کا بوجھ زیادہ تر گھریلو سطح اور کاروباری اداروں پر پڑ سکتا ہے۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ خطے میں تین چوتھائی سے زیادہ گھرانے اور کمپنیاں آئندہ 10 برسوں میں شدید موسمی واقعات کی پیش گوئی کر رہی ہیں۔
ان میں سے تقریباً 80 فیصد گھرانے اور 63 فیصد کاروباری ادارے پہلے ہی کچھ بنیادی اور کم لاگت والے حفاظتی اقدامات کر چکے ہیں، مگر جدید ٹیکنالوجی اور ڈھانچے کی سہولت ان کے پاس محدود ہے۔رپورٹ کے مطابق اگر معلومات، مالیاتی وسائل اور ٹیکنالوجی تک رسائی بہتر بنا دی جائے تو نجی شعبہ بڑھتے درجہ حرارت کے اثرات کو تقریباً ایک تہائی تک کم کر سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2030 تک 1.8 ارب افراد شدید گرمی جبکہ 462 ملین افراد شدید سیلاب کے خطرے میں ہوں گے، جن میں سب سے زیادہ اثرات دیہی اور زرعی آبادی پر مرتب ہوں گے۔مزید یہ بھی بتایا گیا کہ جب گھرانوں کو بروقت وارننگ دی جائے تو وہ 90 فیصد تک حفاظتی اقدامات کر لیتے ہیں، تاہم سیلاب اور دیگر آفات کے لیے ابتدائی وارننگ سسٹم کی رسائی تاحال محدود ہے۔رپورٹ کے مطابق بڑھتے درجہ حرارت، پانی کی کمی اور غیر یقینی بارشوں کی وجہ سے جنوبی ایشیا کی زرعی پیداوار میں 2050 تک 7.5 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ’’کلائمیٹ اسمارٹ فارمنگ‘‘، جدید آبپاشی نظام، زرعی سبسڈی میں اصلاحات اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے کسانوں کو بروقت معلومات فراہم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔مزید برآں، شہروں میں ماحولیاتی موافقت اور تحفظ کے لیے شہری منصوبہ بندی میں موسمی خطرات کو شامل کرنے، بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور کمزور طبقوں کے لیے مخصوص پروگرام متعارف کرانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔