اسلام آباد(نیوز ڈیسک)چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے 150 سالہ عدالتی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس سے نہ صرف مالیاتی نظم و ضبط کو فروغ ملے گا بلکہ سرکاری وسائل کے بہتر استعمال کی راہ بھی ہموار ہوگی۔چیف جسٹس کے دستخط سے جاری ہونے والے حکم نامے کے مطابق گریڈ 20 اور 21 کے افسران سے سرکاری گاڑیاں واپس لے لی گئی ہیں، اور ان کے عوض ماہانہ طے شدہ الاؤنس دینے کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔
اس پالیسی کو “مونوٹائزیشن اسکیم” کا نام دیا گیا ہے جس کا مقصد عدالتی اداروں میں مالی بچت کو یقینی بنانا ہے۔نئی پالیسی کے تحت گریڈ 20 کے افسران کو ماہانہ 65,960 روپے جبکہ گریڈ 21 کے افسران کو 77,430 روپے بطور پٹرول اور گاڑیوں کی مرمت کا الاؤنس دیا جائے گا۔ گریڈ 19 کے افسران سے متعلق فیصلہ آئندہ محکمہ خزانہ سے مشاورت کے بعد متوقع ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی سے ہر ماہ لاکھوں روپے کی بچت ممکن ہو گی جو اس سے قبل سرکاری گاڑیوں کے پٹرول اور دیکھ بھال پر خرچ ہوتے تھے۔عدالتی نظام میں شفافیت اور بچت کے فروغ کے لیے ایک اور اقدام زیر غور ہے، جس کے مطابق پانچ سالہ ملازمت مکمل کرنے والے نائب قاصد کو موٹر سائیکل اور ماہانہ 50 لیٹر پٹرول دینے کی پالیسی پر بھی نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نہ صرف عدالتی فیصلوں میں تیزی لانے کے لیے سرگرم عمل ہیں بلکہ انتظامی امور میں اصلاحات کے ذریعے ادارے کو کفایت شعاری اور شفافیت کی راہ پر گامزن کر رہی ہیں۔وکلا تنظیموں نے اس قدم کا خیرمقدم کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل چوہدری نصیر کمبوہ نے اس فیصلے کو انصاف کے نظام میں ایک مثبت تبدیلی قرار دیا ہے، جبکہ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر احسن بھون نے کہا کہ موجودہ معاشی حالات میں یہ اقدام ایک مثال ہے جس کی پیروی دیگر اداروں کو بھی کرنی چاہیے۔