کابل (نیوز ڈیسک) افغان سپریم کورٹ نے جمعے کے روز بتایا کہ ملک کے مختلف حصوں میں چار افراد کو سرعام فائرنگ کرکے سزائے موت دی گئی۔ یہ اقدام طالبان کی موجودہ حکومت کے دوران ایک ہی دن میں سب سے زیادہ افراد کو دی جانے والی سزائے موت ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ سزائیں افغانستان کے تین صوبوں میں واقع اسٹیڈیمز میں دی گئیں، اور اس طرح 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک سرعام سزائے موت پانے والے افراد کی تعداد 10 ہو گئی ہے۔
طالبان کے سابقہ دور حکومت (1996 سے 2001) کے دوران بھی اس نوعیت کی سزائیں معمول کا حصہ تھیں، جن کے لیے زیادہ تر کھیلوں کے میدان استعمال کیے جاتے تھے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ صوبہ بادغیس کے شہر قلعہ نو میں دو افراد کو قصاص کے تحت مقتولین کے رشتہ داروں نے عوام کے سامنے فائرنگ کرکے ہلاک کیا۔ افغان عدالت کا کہنا ہے کہ ان مجرموں کو قتل کے مقدمات میں سزائیں دی گئیں، اور سزا پر عمل درآمد تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد کیا گیا۔
عدالتی بیان کے مطابق، مقتولین کے خاندان کو مجرموں کو معاف کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، تاہم انہوں نے معافی سے انکار کر دیا۔
مزید تفصیلات کے مطابق، تیسرے مجرم کو صوبہ نمروز کے شہر زرنج میں، جبکہ چوتھے کو مغربی افغانستان کے صوبہ فراہ میں سزائے موت دی گئی۔
اطلاعات کے مطابق مقامی افراد کو ان سزاؤں کے مشاہدے کے لیے سرکاری اعلانات کے ذریعے بلایا گیا تھا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان سزاؤں کو عوامی سطح پر بطور مثال پیش کیا گیا۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طالبان سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسی عوامی سزاؤں کا سلسلہ بند کریں، جنہیں انسانی عظمت و وقار کی شدید خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
یاد رہے، گزشتہ برس نومبر میں بھی ایک شخص کو صوبہ پکتیا کے دارالحکومت گردیز میں ہزاروں افراد کے سامنے گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا، اور اس موقع پر طالبان کے کئی اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔