اسلام آباد (این این آئی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس بابر ستار کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم پرکہا ہے کہ جسٹس بابر ستار کیخلاف بدنیتی پر مبنی مہم چل رہی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے اعلامیے میں کہا کہ جھوٹی، بدنیتی پر مبنی اور توہین آمیز سوشل میڈیا مہم چلائی جا رہی ہے۔اعلامیے میں عدالت نے کہا ہے کہ خفیہ معلومات کو سوشل میڈیا پر بار بار پوسٹ کیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ جسٹس بابر ستار کی اہلیہ اور بچوں کی سفری دستاویزات اور نجی معلومات بے بنیاد الزامات کے ساتھ پھیلائی جا رہی ہیں، جسٹس بابر ستار کی پاکستان کے سوا کسی ملک کی شہریت کبھی نہیں رہی۔عدالت نے کہا کہ جسٹس بابر ستار نے آکسفورڈ یونیورسٹی اور پھر ہارورڈ لاء اسکول سے گریجویشن کی، انہوں نے امریکی لاء فرم کے ساتھ بطور وکیل کام کیا۔اعلامیے میں کہا گیا کہ امریکا میں جسٹس بابر ستار کو غیر معمولی صلاحیتوں پر مستقل شہریت یعنی گرین کارڈ دیا گیا، وہ 2005ء میں امریکا سے پاکستان آئے اور تب سے پاکستان میں ہی کام کیا اور مقیم ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ جسٹس بابر ستار کی اہلیہ، بچے پاکستان اور امریکا کی دہری شہریت رکھتے ہیں،2021ء تک امریکا میں مقیم رہے، جسٹس بابر ستار کے اہلِ خانہ 2021ء میں ان کے جج مقرر ہونے پر وطن واپس لوٹے، اب اسلام آباد میں مقیم ہیں، انہوں نے اپنی تقرری پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو اپنی امریکی شہریت سے آگاہ کیا تھا۔اعلامیے میں کہا گیا کہ جسٹس بابر ستار کی والدہ معلمہ ہیں، 1992ء سے راولپنڈی میں اپنا اسکول چلا رہی ہیں، جسٹس بابر ستار کا اپنی والدہ کے اسکول اور اس کی انتظامیہ سے کوئی تعلق نہیں، جج تقرری سے پہلے جسٹس بابر ستار کی لاء فرم والدہ کے اسکول کی لیگل ایڈوائرز تھی جس کا معاوضہ لیا جاتا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے اعلامیے کے مطابق جسٹس بابر ستار کے اثاثے پاکستان اور امریکا میں ہیں جو ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر ہیں، جسٹس بابر ستار کے اثاثوں کی اسکروٹنی جوڈیشل کمیشن میں ان کی تعیناتی سے قبل ہو گئی تھی، جسٹس بابر ستارکے اثاثے وراثتی ہیں اور کچھ انہوں نے بطور وکیل بنائے، انہوں نے جج بننے کے بعد کوئی اثاثے نہیں بنائے، جسٹس بابر ستار کسی کاروبار کی انتظامیہ سے منسلک نہیں، انہوں نے ایسے کسی کیس کی سماعت نہیں کی جو ان کے خاندان سے متعلق ہو۔عدالتِ عالیہ کے اعلامیے میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی پاسدار ہے اور شفافیت کے لیے یہ اعلامیہ جاری کیا جا رہا ہے۔