لاہور ( این این آئی) سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ دھاندلی زدہ انتخابات تسلیم نہ کرنا میری گھٹی میں شامل ہے،آئین قومی مفاہمت اور میثاق ملی کی حیثیت رکھتا ہے، آئین نہ ہو تو کوئی بھی کسی معاہدے کا پابند نہیں ہوگا، ہماری سیاست اور معیشت آئی ایم ایف کے ہاتھ میں چلی گئی ہے جبکہ تک وہ ہاں نہیں کرے گا دنیا کا کوئی ملک آپ کو قرضہ نہیں دے گا، بد قسمتی سے ہمارے ملک میں آئین بھی محفوظ نہیں رہا ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعیت علما اسلام پنجاب کے زیر اہتمام منعقدہ وکلا کے ساتھ ایک فکری نشست کے دوران خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
اس موقع پر مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا مولانا عبدالغفور حیدری سمیت دیگر بھی موجود تھے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دھاندلی کے خلاف یہ میرا آج کا نظریہ نہیں ہے، ہماری گھٹی میں ہے کہ دھاندلی کا الیکشن تسلیم نہیں کیا کرتے معاشرے میں اخلاقی اقدار زمین بوس ہورہی ہیں، گالی گلوچ کا کلچر فروغ پارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ 1981سے 1986تک آئین کی بحالی کے لیے جیلوں میں رہا، سیاستدان بھی جمہوریت کے حوالے سے کمزوریاں دکھاتے رہے ہیں، ہم نے اپنی اقدار کا تحفظ کرنا ہے، ہم اپنی اقدار کے قاتل کیوں بنیں۔انہوں نے کہا کہ آئین ہمارے نزدیک ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے جس وقت یہ آئین بنایا گیا اس وقت ملک ٹوٹ چکا تھا۔فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کی تو ملک کی سیاست دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی، ایک طرف تمام جماعتیں شریک تھیں، ایوب خان سے مذاکرات ہوئے اور دو باتوں پر اتفاق ہوگیا، ملک کے اندر پارلیمان طرز کی حکومت ہو اور قوم کو ووٹ کا حق دیا جائے، ذوالفقار بھٹو کا کہنا تھا کہ صدارتی طرز حکومت ہو 1973 میں مستقل آئین بنا تو ذوالفقار بھٹو بھی پارلیمانی طرز حکومت پر متفق ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آئین نہیں ہے تو کوئی صوبہ نہیں ہے اس لیے آئین کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں آئین بھی محفوظ نہیں رہا ،آج بھی میں یہی سوال کر رہا ہوں پاکستان مسلم لیگ (ن) سے بھی اور پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی کہ جو آپ کا مینڈیٹ 2018 میں تھا تقریباً کچھ اوپر نیچے آج بھی وہی ہے ہم نے اس وقت بھی دھاندلی کو قبول نہیں کیا تھا اور آج بھی قبول نہیں ہے یہاں پارلیمنٹ کا نظام ہی چلے گا ورنہ نہیں چلے گا۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ یہی ہمارا آج بھی اختلاف رائے ہے کہ فیصلے عوام کو کرنے ہیں یا ہماری اسٹیبلشمنٹ کو کرنے ہیں قانون سازی عوام کو کرنی ہے یا پیچھے سے ڈکٹیٹ ہونی ہے؟۔
انہوں نے کہا کہ ہماری سیاست اور معیشت آئی ایم ایف کے ہاتھ میں چلی گئی ہے جب تک وہ ہاں نہیں کرے گا دنیا کا کوئی ملک آپ کو قرضہ نہیں دے گا، لیاقت علی خان جب امریکہ گئے تو وہاں سے پیسہ لائے ہمارے منہ کو پیسہ لگا ہے اور ہم ختم ہوگئے، دفاع کے لیے آپ ایٹم بم کے مالک بنے لیکن آپ کر کچھ نہیں سکتے ہر طرف سے پاکستان پر دبائو آرہا ہے ہم ایٹم بم کے مالک ہیں لیکن ہمیں اپنا ایٹم بم سنبھالنا مشکل ہورہا ہے۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ اسلامی دنیا کے ایٹم بم ہوتے ہوئے آج فلسطینی بھائیوں پر قیامت گزر رہی ہے وہاں اب تک 31ہزار مسلمان شہید ہوچکے ہیں، بارشیں ہو رہی ہیں اور مائیں اپنا سر جھکا کر انہیں بارش سے بچانے کی کوشش کررہی ہیں کیوں کہ کوئی سائبان ہی نہیں، بچے گھاس کھا رہے ہیں، اب کہاں گیا انسانی حقوق؟۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کس انسانی حقوق کی بات کرتا ہے؟ امریکی حکام میرے پاس آئے میں نے کہا گوانتا موبے میں جو لوگ آپ لوگوں کے ساتھ کررہے تھے کہا وہ انسانی حقوق تھا؟ اور امریکہ آج بھی اسرائیل کو مدد کررہے ہیں جہاں فلسطینیوں پر ظلم ستم ہو رہا ہے، جاپان پر ایٹمی بم انہوں نے گرائے آج پھر بھی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عدلیہ کا فیصلہ بطور نظیر دنیا میں کوئی پیش کیا جاتا ہے؟ بھٹو کو اسی عدالت نے پھانسی دی یہی عدالت آج کہتی ہے بھٹو ٹرائل ٹھیک نہیں ہوا، بھٹو پھانسی چڑھ گیا اب کہتے ہیں فیصلہ غلط تھا۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے سامنے ہماری عدلیہ کی تصویر کیسے پیش کی جاتی ہے کہ جب کسی کو اقتدار میں لانا ہو تو ایک ہفتے میں ایک سو مقدمات ختم ہوجاتے ہیں اور اقتدار سے ہٹانا ہو تو ایک سو مقدمات بن جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو کیا کہیں، ختم نبوت کیس پر عبور نہیں تھا تو سننا نہیں تھا ہم اس فیصلے کے خلاف میدان میں نکلیں گے، امریکہ میں کوئی شخص آئین کو نہیں مانتا تو وہ امریکی شہری نہیں بنتا اور پاکستان کے آئین کو قادیانی نہیں مانتا۔