جمعرات‬‮ ، 29 مئی‬‮‬‮ 2025 

حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ترکی میں ہے!

datetime 30  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

قرآنِ مجید میں اللہ تعالی نے جن قوموں کا تذکرہ کیا ہے ان کے آثار آج بھی دنیا میں موجود ہیں۔ ان قوموں کو اللہ تعالی نے ان کی نافرمانیوں‘ خدا سے انکار ‘رسولوں ‘نبیوں اور ان کے ماننے والوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردینے پر سخت سزائیں (عذاب ) بھی دیں اور قرآن میں ہم مسلمانوں کی عبرت اور رہنمائی کیلئے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ حضرت نو ح علیہ لسلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ کے افراد خاندان اور اللہ کے حکم سے تیار کی گئی کشتی میں سوار جانوروں کے علاوہ ہر شئے پانی میں غرق کردی گئی تھی۔ کشی پر جملہ 8 افراد سوار تھے حضرت نوح علیہ السلام آپ کی اہلیہ ‘تین بیٹے اور بہوئیں باقی تمام مختلف اقسام کے جانوروں کی جوڑیاں تھیں۔ نوح علیہ السلام کا واقعہ سابقہ آسمانی کتابوں توریت زبور اور انجیل میں بھی ملتا ہے۔
چین کے عیسائی مبلغین اور سائنس دانوں کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے کئی ماہ پر مشتمل اپنی تحقیق کے اختتام کا 2010 میں اعلان کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی تاریخی کشتی کو تلاش کرلیا ہے۔ یہ کشتی مشرقی ترکی میں واقع ’’کوہ رارات‘‘ پر ملی ہے جس کی چوٹی کی بلندی 12 ہزار فیٹ ہے۔ ماہرین کی ٹیم کا کہنا تھا کہ اس کشتی کی تین منزلیں ہیں۔ یہ کشتی کئی میٹر برف کے نیچے دبی ہوئی ہے۔  گذشتہ 200 برسوں سے ایک درجن سے زیادہ ٹیمیں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کو تلاش کررہی تھیں جس کے بارے میں قرآن پاک میں آتا ہے کہ وہ ایک جودی (چوٹی) سے ٹکرا کر رک گئی تھی۔ چین کے ماہرین کی اس رپورٹ کو امریکی سائنس دانوں نے ماننے سے انکار کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ کشتی کی لکڑی کے نمونے جو فارنسک جانچ کیلئے بھیجے گئے تھے اتنے پرانے نہیں ہیں کہ اس کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کے دور کی کشتی ہے جبکہ چینی ماہرین کی ٹیم کا دعوی ہے کہ وہ 99.9 فیصد یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہی کشتی ہے جو حضرت نوح علیہ السلام نے 4800 سال قبل اللہ کے حکم سے بنائی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کشتی کی 3 منزلیں ہیں اور اس میں کئی بڑے بڑے کمرے ہیں۔ان کمروں میں لکڑی کے ستون ہیں۔
عرب اخبارات نے بھی اس ضمن میں سوال اٹھائے تھے کہ کیا واقعی یہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہے۔ عرب اخبارات نے لکھا کہ چینی اور ترک عیسائی ماہرین نے اپنی تحقیق کیلئے قرآن کریم کی ان آیات کا بھی مطالعہ کیا تھا جس میں کشتی کے سفر کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کشتی کے ٹہرنے کے جس مقام کی نشاندہی کی گئی ہے وہ سائنس دانوں کو کوہ رارات کی طرف لے جاتی ہے۔ گذشتہ 20برسوں میں کئی سائنس دانوں نے کوہ ارات کادورہ کیا۔ ان میں سے کچھ ایک نے پہاڑی پر بنی کشتی کی شکل کی چٹان کو ہی حضرت نوح کی کشی قرار دے دیا، لیکن چینی اور ترک ماہرین نے پہاڑ کے اس برفیلے مقام پر تحقیقات کی جہاں درجہ حرارت منفی 60 ڈگری ہوتا ہے اور پہاڑ کے جس حصے میں کشتی کے باقیات دریافت ہوئے ہیں وہ انتہائی ڈھلوان اور خطرناک ہے رپورٹ کے مطابق اس ٹیم نے 60 مختلف مقامات سے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا مشاہدہ کیا۔ یہ کشتی کئی جگہوں سے ٹوٹی ہوئی ہے تاہم مکمل تباہ اس لئے نہیں ہوئی کہ یہ برف کی دبیز تہہ میں دبی ہوئی ہے کشتی ٹوٹی ہوئی ہونے کی وجہ سے ماہرین اسکے اندر داخل ہوپائے۔ چینی ماہر وینگ چینگ نے باضابطہ ایک پریس کانفرنس منعقد کر کے اپنی تحقیق سے آگاہ کیا تھا۔ کشی کا معائنہ کرنے والے ایک چینی ماہر کا کہنا ہے کہ کشتی کا ہر کمرہ 5 میٹر اونچا ہے اس میں کوئی بھی جانور آسانی سے سما سکتا تھا۔ چینی ماہرین نے ریڈیو کاربن ٹکنالوجی سے کشتی کے ٹکڑوں کا مشاہدہ کیا اور دعوی کیا کہ یہ 4800 سال پرانی ہے۔ کشتی میں کئی صندوق بھی ملے ہیں لیکن چینی ماہرین ان کو کھول نہیں پائے۔ ماہرین ایک مرتبہ پھر جدید آلات ایکسرے مشینوں کے ذریعہ کوہ ارارت کا تفصیلی دورہ کرنے والے ہیں تا کہ تمام رازوں سے پردہ ہٹانے کے علاوہ امریکی سائنس دانوں کے سوالات کا جواب دے سکیں۔
حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی دریافت کا دعویٰ نیا نہیں ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں لیونارڈ نامی برطانوی فوجی لڑائی میں حصہ لینے عراق گیا تھا۔ لیونارڈ کو تاریخ اور آثار قدیمہ میں کافی دلچسپی تھی اس لئے اس نے عراق کے بازاروں سے مختلف آثار قدیمہ کی اشیاء خریدنا اور جمع کرناشروع کیا۔ جب وہ چل بسا تو اس کے بیٹے سائمنس کے حصہ میں یہ اشیاء آئیں اس نے یہ اشیاء برطانیہ کے میوزیم کے حوالے کردیں۔ برٹش میوزیم سے وابستہ ماہر آثار قدیمہ ارونگ فنکل نے ان اشیاء کا معائنہ کیا۔ اس میں ایک تختی بھی جس پر قدیم اشوری زبان میں کچھ لکھا تھا۔ سخت مٹی سے بنی اس تختی پر لکھی عبارت کا جب انہوں نے ترجمہ کیا توہ وہ حیران رہ گئے۔ تختی پر درج تھا جب انسانوں کے گناہ بڑھ گئے تو خدا ان سے ناراض ہوگیا اور پھر اس نے گناہ گاروں کو پانی میں ڈبونے کافیصلہ کیا تب فرشتوں نے وادی دجلہ اور فرات میں آباد ایک نیک انسان (حضرت نوح علیہ السلام) تک خدا کا یہ پیام پہنچایا کہ وہ ایک کشتی تیار کریں اور اس میں نیک لوگوں کے علاوہ تمام جانداروں کا ایک ایک جوڑا بھی سوار کرلیں۔ اس تختی میں کشتی کو اتنا بڑا بتایاگیا ہے کہ وہ فٹ بال کے ایک اسٹیڈیم کے برابر تھی۔ ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ تختی 4 ہزار برس پرانی ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام سے دو ہزار برس پہلے کی ہے اس طرح طوفان نوح کا ایک اور ٹھوس ثبوت دنیا کے ہاتھ بہت پہلے ہی لگ چکا ہے۔ عام طور پر مذہب خصوصاً اسلام کے منکرین ان واقعات کو افسانوی قصے قرار دیتے ہیں۔ یہ تمام ثبوت ان کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے اس تختی پر یہ بھی لکھا ہے کہ نوح کی کشتی آج کل کی کشتیوں کی طرح لمبی نہیں تھی۔ بیضوی (انڈے نما) تھی اس زمانے میں دجلہ اور فرات میں اسی طرز کی کشتیاں چلتی تھیں۔ کشتی کے ٹہرنے کے مقام کے بارے میں قرآن مجید کے سورہ ہود آیت نمبر 44 میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک بلند مقام (جودی) پر جاکر رکی تھی۔ عراق اور شام کے قدیم باشندے (بابل کے دور میں) یہ سمجھتے تھے کہ کشتی کوہ قردہ پر ٹہری تھی یہ مشہور پہاڑ جزیرہ ابن عمر کے قریب واقع ہے۔ یہ مقام بھی اب ترکی کے حصے میں ہے تاہم عراق کی سرحد اس سے متصل ہے۔ مسلم سائنس دانوں تاریخ دانوں نے کوہ قردہ کو ہی نوح کی کشتی کا ٹہراو کا مقام قرار دیا ہے اسی لئے یہ پہاڑ مسلمانوں میں کوہ جودی کے نام سے مشہور ہوگیا تاہم عیسائی مبلغین کاکہنا ہے کہ کشتی کوہ ارارت پر جاکر رکی تھی یہ پہاڑ آرمینیا اور ترکی کی سرحد پر ہے۔ آر مینیا میں 301 ء میں ہی عیسائیت کو سرکاری مذہب قرار دیاگیاتھا اسی لئے کہا جاتا ہیکہ اس ملک کی اہمیت بڑھانے کیلئے کوہ ارارت کو نوح کی کشتی کا مقام قرار دیا گیااور اب سائنس دانوں اور ماہرین نے اس کشتی کو اسی مقام پر تلاش کرنے کا دعوی کیا ہے کوہ جودی (کوہ قردہ ) وادی دجلہ اور فرات کے قریب ہے جبکہ کوہ ارارت اس وادی سے کئی سو میل دور ہے اس لئے اس دعوی میں الجھن پائی جاتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی کے علاوہ شیخ الانبیاء کا بھی خطاب عطا ہوا ہے، کیونکہ وہ پہلے پیغمبر ہیں جو انسانیت کی طرف بھیجے گئے۔ قرآن پاک میں حضرت نوح علیہ السلام کا نام 73 مرتبہ آیا ہے۔ ان کی عمر 900 برس تھی۔ نبیوں میں آپ سب سے طویل العمر ہوئے ہیں۔ حضرت نوح موجودہ عراق میں آباد ایک قوم کے پاس نبی بناکر بھیجے گئے تھے۔ جب بہت وعظ اور نصیحت کے باوجود بھی قوم نے سرکشی نہ چھوڑی تو اللہ تعالیٰ سے آپ نے اپنی قوم کیلئے عذاب مانگا ‘ اللہ نے آپ کو ایک کشتی بنانے کا حکم دیا۔ دو سال کی مدت میں کشتی تیار ہوئی جس کی لمبائی 3 سو گز اور چوڑائی 50 گز اونچائی 30 گز تھی۔ جب عذاب آیا تو آسمان سے مسلسل بارش ہونے لگی اور زمین سے چشمے ابلنے لگے ہر شئے غرق ہوگئی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی 6 ماہ 8 دن پانی پر تیرتی رہی اور 10 محرم الحرام کو کوہ جودی پر جاکر ٹہر گئی۔ کئی دن تک پانی اتر تا رہا اس کے بعد جب خشکی پیدا ہوئی تو حضرت نوح علیہ اسلام نے خسران شہر بسایا اور ایک مسجد بنائی جس کا نام ثمانین تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام طوفان کے بعد صرف 60 برس زندہ رہے ان کا مزار آج بھی لبنان میں موجود ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



نوے فیصد


’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…

غزوہ ہند

بھارت نریندر مودی کے تکبر کی بہت سزا بھگت رہا…

10مئی2025ء

فرانس کا رافیل طیارہ ساڑھے چار جنریشن فائیٹر…

7مئی 2025ء

پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان…

27ستمبر 2025ء

پاکستان نے 10 مئی 2025ء کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ…

وہ بارہ روپے

ہم وہاں تین لوگ تھے‘ ہم میں سے ایک سینئر بیورو…

محترم چور صاحب عیش کرو

آج سے دو ماہ قبل تین مارچ کوہمارے سکول میں چوری…

شاید شرم آ جائے

ڈاکٹرکارو شیما (Kaoru Shima) کا تعلق ہیرو شیما سے تھا‘…

22 اپریل 2025ء

پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا چھوٹا…