اسلام آباد (این این آئی)چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے صدر مملکت عارف علوی کی طرف سے عام انتخابات کے لیے مناسب تاریخ طے کرنے کے پیش نظر ملاقات کے لیے لکھے گئے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ،انتخابی قوانین میں تبدیلی کے بعد عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار کمیشن کا ہے۔
صدر مملکت عارف علوی نے گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو خط لکھا تھا، جس میں انہوں نے الیکشن کمشنر کو ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ملاقات کی دعوت دی تھی۔اپنے خط میں صدر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 244 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے قبل از وقت تحلیل ہونے کے بعد 90 دن کی مقررہ مدت میں انتخابات کروانے کے پابند ہیں۔صدر کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ صدر کی جانب سے وزیراعظم کے مشورے پر 9 اگست کو قومی اسمبلی کو تحلیل کیا گیا تھا، جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے تحت صدر اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اسمبلی تحلیل کی تاریخ سے 90 دن میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ مقرر کریں۔
انہوں نے کہا تھا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 48 کی ذیلی شق 5 کے تحت صدر مملکت تاریخ دینے کے پابند ہیں جو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کے لیے 90 روز سے زیادہ نہ ہو۔صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 5 کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ جب صدر، قومی اسمبلی تحلیل کرتا ہے اور اس کا شق ون کا کوئی حوالہ نہیں ہوتا ہے تو وہ قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے تاریخ دے گا جو اسمبلی کی تحلیل کے دن کے بعد 90 روز سے طویل نہ ہو۔خط میں کہا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 224 یا 224 اے کے مطابق نگران کابینہ تشکیل دی جائے گی۔خیال رہے کہ 20 فروری کو صدر عارف علوی نے یکطرفہ طور پر 9 اپریل کو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں نے پارٹی چیئرمین عمران خان کے حکم پر اپنی پانچ سالہ مدت ختم ہونے سے قبل دونوں اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا تھا۔
صدر کا یکطرفہ اعلان دونوں اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخوں پر مشاورت کے لیے ان کی دعوت کو الیکشن کمیشن کی جانب سے نظرانداز کرنے کے بعد سامنے آیا تھا اب صورتحال بدل گئی ہے کیونکہ انتخابی قوانین میں حالیہ ترامیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو صدر کے مشورے کے بغیر انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
صدر کو لکھے گئے خط میں سکندر سلطان راجا نے کہا کہ یہ ذکر کرنا لازمی ہے کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں پارلیمنٹ نے ترمیم کی تھی، جس کے تحت الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔خط میں کہا گیا کہ جہاں صدر اپنی صوابدید پر قومی اسمبلی کو تحلیل کرتا ہے، تو انہیں عام انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنی ہوتی ہے، تاہم اسمبلی وزیر اعظم کے مشورے پر یا آئین کے آرٹیکل 58 (1) میں فراہم کردہ وقت کے اضافے سے تحلیل کی جاتی ہے تو الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا اختیار خصوصی طور پر اس کے پاس ہے۔سکندر سلطان راجا کے خط میں کہا گیا ہے کہ کمیشن انتہائی احترام کے ساتھ یقین رکھتا ہے کہ آپ (صدر)کے خط میں ذکر کردہ آئین کی دفعات پر انحصار اس تناظر میں لاگو نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری کے بعد انتخابی حلقہ بندیاں کرنا انتخابات کے انعقاد کی جانب بنیادی قانونی اقدامات میں سے ایک ہے۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کی اپنی ذمہ داری انتہائی سنجیدگی سے لے رہا ہے اور کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے حوالے سے اپنی رائے دینے کی دعوت بھی دی ہے۔
خط میں لکھا گیا کہ مذکورہ بالا کمیشن کے اعلان کردہ مقف کے باوجود، پورے احترام کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ کمیشن صدر کے عہدے کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور مناسب وقت پر قومی مسائل پر آپ سے ملاقات اور رہنمائی حاصل کرنا ہمیشہ ایک اعزاز رہا ہے۔خط میں موقف اپنایا گیا کہ مذکورہ بالا نکات کو مدنظر میں رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کا خیال ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے صدر مملکت سے ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
بعد ازاں ایوان صدر کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر)پر جاری بیان میں کہا گیا کہ ایوان صدر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خط پر وزارت قانون و انصاف کی رائے مانگ لی ہے۔بیان میں کہا گیا کہ ایوان صدر نے انتخابات کی تاریخ دینے کے اختیار کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے مقف پر رائے مانگی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینا ان کا اختیار ہے۔ایوان صدر نے کہا کہ صدرمملکت کے خط کے جواب میں الیکشن کمیشن کے مقف پر رائیمانگی گئی ہے اور اسی پر ایوان صدر کی جانب سے خط وزارت قانون و انصاف کے سیکرٹری کے نام لکھ دیا گیا ہے۔