ملااور بادشاہ

16  دسمبر‬‮  2016

ملا نصر الدین کے گھر میں بیری کا ایک درخت تھا جس پر بڑے میٹھے بیر لگتے تھے ، وہ انہیں دیکھ دیکھ کر بڑا خوش ہوتا اور بڑے فخر سے کہا کرا کہ ساری دنیا میں اتنے بڑے اور میٹھے بیر کہیں نہیں ہوں گے۔ایک روز اس نے اچھے اچھے بیر چھانٹ کر ایک تھالی میں سجائے ، تھالی سر پر رکھی اور بادشاہ کے محل کی طرف چل دیا کہ جا کر اسے یہ تحفہ دے۔

راستے میں بیروں نے تھالی کے اوپر لڑھکنا اور ناچنا شروع کر دیا، ملا کو بار بار تھالی کا توازن درست کرنا پڑتا تھا، مگر بیر تھے کہ نچلے نہ بیٹھتے تھے ، کبھی ادھر کو لڑھکتے ، کبھی ادھر کو، ملا بیروں کی شرارت سے تنگ آ گیا اور ایک جگہ رک کر کہنے لگا۔کم بختو، اگر تم نے ناچنا اور لڑھکنا بند نہ کیا تو میں تم سب کو ہڑپ کر جاو گا۔یہ کہہ کر اس نے ایک مرتبہ پھر ترتیب سےبیروں کو رکھا اور تھالی سر پر رکھ کر آگے چل پڑا، لیکن بیروں نے پھر تھرکنا شروع کر دیا اب تو ملا کو بڑا طیش آیا، راستے ہی میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔ اچھا کم بختو، تم یوں نہ مانو گے ، لو، اب تماشا دیکھو، یہ کہہ کر اس نے ایک ایک کر کے بیروں کو کھانا شروع کر دیا، جب ایک بیر باقی رہ گیا تو ملا نے اس سے کہا، اگر تمہیں ایک موقع اور دیا جائے تو کیا خاموش سے چلو گے۔بے چارہ بیر اپنے ساتھیوں کا حشر دیکھ چکا تھا، اس لیے وہ چپ چاپ تھالی میں پڑا رہا اور ملا نصر الدین اسے لے کر بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا، اس روز بادشاہ سلامت کا موڈ بہت اچھا تھا، انہوں نے ملا نصر الدین کا تحفہ مزے لے لے کر کھایا اور خوب تعریف کی۔پھر ملا نے بادشاہ کو دلچسپ لطیفے سنائے جنہیں سن کر اس کے پیٹ میں بل پڑ گئے ، شام ہوئی تو ملا نے رخصت ہونے کی اجازت طلب کی

بادشاہ نے اس کی تھالی، ہیروں جواہرات سے بھر دی اور ملا ہنسی خوشی گھر آ گیا۔ ایک ہفتے تک وہ بڑا خوش رہا، اس کے بعدپھر اسے ہیروں کا لالچ ہوا، وہ سوچنے لگا کہ اس مرتبہ بادشاہ سلامت کے لیے کیا چیز لے جاوں، یکایک اس کی نظر اپنے گھر میں لگے ہوئے سرخ سرخ چقندروں پر پڑی، ملا خوش سے اچھل پڑا اور اس نے یہی تحفہ بادشاہ کے پاس لے جانے کا فیصلہ کر لیا،

اس نے جلدی جلدی ڈھیر سارے چقندر توڑ کر اپنی تھالی میں سجائے ، تھالی کو سر پر رکھا اور بادشاہ کے محل کی طرف چل پڑا۔راستے میں اسے ایک دوست ملا جس کا نام حسن تھا، اس نے پوچھا، ملا صاحب، اتنے شاندار چقندر تم کس کے لیے لے جا رہے ہو۔ بادشاہ سلامت کو تحفے میں دینے کے لیے۔ تحفہ اور وہ بھی چقندروں کا، ملا جی، تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا، حسن نے کہا۔ کیوں، کیا ہوا، کیا چقندر بادشاہوں کو تحفے میں دیے جانے کے لائق نہیں،

ملا نے پوچھا۔ یہ کہہ کر اس نے چقندروں کو غور سے دیکھا، اب اسے محسوس ہوا کہ واقعی چقندر اس قابل نہیں کہ بادشاہ کو تحفے میں دیے جا سکیں۔ اس نے حسن سے پوچھا، بھائی تم ہی کچھ بتاوں، میں ان کے بجائے اور کیا چیز لے جاوں۔ انجیر لے جاوٴ، پکے ہوئے رس دار۔ارے واہ، یہ تو تم نے خوب بتایا ملا نے کہا غضب خدا کا، مجھے پہلے کیوں خیال نہ آیا کہ بادشاہ کے پاس انجیر لے جانے چاہئیں۔

وہ الٹے پاوٶں بازار کی جانب چلا اور ایک دکان دار سے چقندروں کے عوض پکے پکے رس دار انجیر لے لیے۔ اب سنو، اس روز بادشاہ سلامت کا مزاج بہت گرم تھا، درباری امیر اور وزیر سب سہمے ہوئے تھے ، ملا حسب معمول اچھلتا کودتا بادشاہ کے سامنے پہنچا اور تھالی اس کے آگے رکھ دی۔ کیا ہے اس میں، بادشاہ نے گرج کر پوچھا۔ حضور، انجیر ہیں، آپ کے لیے لایا ہوں، ذرا چکھ کو تو دیکھیے۔بادشاہ کے غصے کا پارہ اور گرم ہو گیا،

اس نے کڑک کر سپاہیوں کو آواز دی اور انہیں حکم دیا کہ یہ سب انجیر ملا کے پھینک پھینک کر مارو اور خوب زور زور سے ، ملا نے یہ حکم سنا تو سر پر پاٶوں رکھ کر بھاگا، لیکن سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور انجیر مار مار کر اس کا منہ سجا دیا، جب انجیر ختم ہو گئے تو سپاہیوں نے اسے چھوڑ دیا اور وہ تیر کی طرح وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔ راستے میں ملا کو حسن ملا۔ ملا فوراً اس کے گلے سے لپٹ گیا

اور کہنے لگا، پیارے بھائی، اگر میں تمہاری نصیحت نہ مانتا تو میری ہڈی پسلی ایک ہو جاتی، خدا تمہیں جزائے خیر دے۔ حسن نے ملا کی یہ حالت دیکھی تو اسے سخت تعجب ہوا اور کہنے لگا آخر کچھ بتاو: تو کیا واقعہ پیش آیا۔ارے بھائی، بس بال بال بچ گیا، خدا تمہارا بھلا کرے ، میں نے تمہاری نصیحت مان لی۔

کون سی نصیحت، حسن نے جھنجھلا کر پوچھا۔ ارے بھائی، وہی چقندروں کے بجائے انجیر لے جانے کی، اف خدایا، اگر میں وہ بڑے بڑے لوہے جیسے سخت چقندر لے جاتا اور بادشاہ کے سپاہی وہ مجھ پر پھینکتے تو سچ مانو، میرا تو کچومر ہی نکل جاتا، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں نے تمہاری رائے پر عمل کیاورنہ چقندر توبہ توبہ پیارے بھائی، اللہ تمہیں اس کا اجر دے۔

موضوعات:



کالم



آئوٹ آف دی باکس


کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…

ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟

عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…